نیویارک (سہیل چیمہ)آج پاکستان ساوتھ افریقہ سے ٹیسٹ سیریز ھار گیا۔۔۔ویسے تو پاکستان جب وسیم، وقار، میانداد، انضمام، یونس ، یوسف اور شعیب اختر جیسے پلیرز کے ھوتے ھوے بھی آج تک ساوتھ افریقہ کو کبھی بھی ساوتھ افریقہ میں ٹیسٹ سیریز نہی ھرا سکا، مگر اب پاکستان کی کرکٹ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کی ھاکی اور اسکواش بنتی جارہی ھی۔۔۔۔اس Downfall کی وجہ ھمیشہ لوگوں نے اندرونی سیاست کو ذمہ دار ٹہرایا مگر یہ تنزلی اندرونی سیاست کم اور ھماری مجموعی سیاست اور سماجی downfall کا نتیجہ ھے، جس پر نہ کوئ بات کرتا ھے اور نہ کوئ سمجھنے کو تیار ھے۔۔ ایک زمانہ تھا صرف کراچی کے شہر ناظم آباد سے ورلڈ الیون کی ٹیم بنتی تھی۔۔۔ صرف اس چھوٹے سے شہر سے حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد، صادق محمد، آصف اقبال، ظہیر عباس جیسے کھلاڑیوں نے پاکستان کی ٹیم کی نمائندگی کی ھے۔۔۔اگر آپ باقی شہر کی بات کرو تو جاوید میانداد، وسیم باری، ھارون رشید، معین خان، راشد لطیف،… کئی مایہ ناز کھلاڑیوں نے گرین کیپ پہن کر ملک کا نام روشن کیا۔۔۔ایک زمانے میں میرے اپنے محلے میں بیک وقت دس مختلف ٹیمیں ، مختلف جگہ پر ایک ساتھ سڑک پر کرکٹ کھیل رھی ھوتی تھی۔۔۔۔کراچی کے ھزاروں کرکٹ گراونڈز اتوار اور جمعہ کو سفید کپڑے پہن کر میلہ سجایا کرتے تھے۔۔۔آج ان کرکٹ گراونڈز پر چائنا کٹنگ کرکے اپارٹمنٹس اور پلازہ تعمیر ھوچکے ھیں۔۔۔سڑکوں پر مختلف ٹیموں کی بجاے وحشت اور خوف کے آپس میں میچ کھیلتے ھیں۔۔۔۔اور وہ بچے جو شہر میں کرکٹ کھیلتے تھے، اکثر سوشل میڈیا کے ان باکس میں انڈور کھیلوں میں اپنا ٹیلنٹ دکھاتے ھیں. ۔۔ایک زمانہ تھا پاکستان کی کرکٹ ٹیم آدھی کراچی اور آدھی لاھور سے بنتی تھی۔۔۔اکثریت لڑکے پڑھے لکھے گھرانوں کے ھوتے تھے۔۔۔ایک زمانے میں پاکستان کی ٹیم میں بیک وقت، ماجد خان، صادق خان، ظہیر عباس، جاوید میانداد، آصف اقبال، وسیم باری، عمران خان، سرفراز نواز، کھیلتے تھے جو سب کے سب ٹیم کے کپتان بنے۔۔۔آج ھمارے یہ حالات ھیں، ایک بھی کھلاڑی ٹیم کا کپتان بننے کے لائق نہی۔۔۔ٹیم میں ٹیلنٹ کا فقدان ھے۔۔۔اس سارے downfall یا تنزلی کی وجہ کراچی اور لاھور سے پڑھے لکھے لکھے نوجوانوں کی کھیل سے عدم دلچسپی ۔۔۔آج ٹیم میں زیادہ تر لڑکے پاکستان کے گاوں دیہاتوں سے تعلق رکھتے ھیں، سونے پر سہاگہ ھم نے کرکٹ میں بھی تبلیغی جماعت گھسا دی ھے ۔۔۔ ھمارے کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ تو ھے مگر گیم اب سائنٹفک ھوچکا ھے۔۔۔اب گیم میں کمپیوٹرز آگیے ھیں۔۔۔جو آپ کے کھیل کی خامیاں ایک سیکنڈ میں نکال کر آپ کو فارغ کردیتے ھیں۔۔۔اگر پاکستان کی کرکٹ کو سہی کرنا ھے تو ھمیں اس کے گراس روٹ لیول پر کام کرنا پڑیگا ۔۔۔اب تک ھم مرھم پٹیوں سے گزارہ کررھے ھیں ۔۔ھم ھمیشہ کینسر کا علاج ڈسپرین یا دم دوا سے کرنے کے عادی ھیں۔۔۔اچھی خبر یہ ھے کہ موجودہ کرکٹ بورڈ نے وسیم خان جو یارکشائر کاونٹی کے CEO تھے، ان کو کرکٹ بورڈ کا مینجنگ ڈاریکٹر بنایا ھے جو کرکٹ کے انفرا اسٹکچر پر توجہ دیں گے اور اس کی خامیاں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔