کراچی (اسپورٹس رپورٹر)قومی فٹبالرمحمد عمران نے کہا ہے کہ گذشتہ 8سالوں سے بحیثیت صدر،سندھ فٹبال ایسوسی ایشن پر قابض خادم علی شاہ نو منتخب فیڈریشن کے عہدیداران پر تنقید سے پہلے اپنے ماضی میں جھانک لیتے تو شائد انہیں شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔انہوں نے اپنے دونوں ادوار میں فیصل صالح حیات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کی فٹبال کی ترقی کے بجائے اپنی ترقی کو زیادہ اوّلیت دی جس کا شاخسانہ آج پورے پاکستان کی فٹبال کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔گذشتہ 8سالوں میں سندھ فٹبال ایسوسی ایشن کا ایک اجلاس نہ بلانا اور کسی ایونٹ کا انعقاد نہ کرنا ان کی فٹبال سے محبت کی دلیل ہے۔اپنے دورانیہ میں لاکھوں روپے انٹرڈسٹرکٹ ٹرانسفر اور ٹورنامنت کے اجازت نامہ کی مد میں کلبوں سے وصول کئے گئے جو ماتحت ذمہ داران کے ساتھ مل کر خوردبرد کئے جاتے رہے ہیں۔ سندھ فٹبال ایسوسی ایشن کے متعدد اکاؤنٹس تو متحرک ہیں لیکن آڈٹ کسی کا نہیں ہوتا۔سندھ کے ڈسٹرکٹ کے کلبوں کو ماتحت سیکریٹریز کو دھونس اور دھمکی کے زریعے زیر اثر لانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ماتحت ڈسٹرکٹ سیکریٹریز کو مکمل آزادی ہے کہ وہ کھلاڑیوں پر جرمانے لگائے، کلبوں کی رجسٹریشن کیلئے متعلقہ کلبوں سے 50,50ہزار روپے وصول کرکے پاکستان فٹبال فیڈریشن کے دستور کا مذاق اڑائے ۔کلبوں کو اس قدر دباؤ میں مبتلا رکھنے کی ہدایات کو تسلسل سے جاری رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی توجہ صدر، سندھ فٹبال ایسوسی ایشن کے تواتر سے جاری غیر ملکی دوروں پر مرکوز نہ ہو۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے نو منتخب صدر، انجینئر سید اشفاق حسین شاہ سے اپنا موازنہ کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ نومنتخب صدر فیڈریشن نے اپنے پہلے ہی سال میں پاکستان کی تاریخ کی پہلی نیشنل انٹر سٹی فٹبال چمپئن شپ کراکے ملک بھر کی فتبال کو متحرک و فعال کردیا جوسابق صدر فیڈریشن اپنے 15سالہ دور میں نہ کرسکے۔فیصل صالح حیات اور خادم علی شاہ اپنے بے شمار غیر ملکی دوروں کے ٹی اے ڈی اے کی وصولی کا ڈھائی پرسنٹ بھی پاکستان کی فٹبال کی ترقی پر خرچ کردیتے تو پاکستان کھلاڑی پسماندہ یا فٹبال کھیل زبوںحالی کا شکار نہ ہوتا۔ان حضرات کی سندھ کی فٹبال اور ان کے ذمہ داران سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فیڈریشن میں سندھ کے کسی بھی ذمہ دار کی نمائندگی نہیں اور بزنس مینوں کو فیڈریشن میں سندھ کا ممبر بنایا گیا ہے ۔کے پی ٹی گراؤنڈ کراچی میں چیلنج کپ کے فائنل میں پنجاب سے آئے ہوئے ممبران کو سندھ کے ذمہ داران پر مکمل برتری حاصل رہی ۔ حتیٰ کہ سیکریٹری ملیر جنہوں نے ڈسٹرکٹ ملیر کے فنڈز سے فیڈریشن کے ایونٹ کے میچز ملیر میں بلامعاوضہ کرائے لیکن فائنل میں تقریب تقسیم انعامات کے موقع پر سیکریٹری ملیر کوتقریب سے دوررکھا گیا۔ایک کمپیئرکو تو فیڈریشن نے اعزازی شیلڈ کے قابل سمجھا جبکہ سیکریٹری سندھ کو اس اعزاز سے محروم کردیا گیا۔لیکن افسوس اس ہتک کو سندھ کے دوست اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں اور مسلسل انکی دست گیری میں بچھے جارہے ہیں۔کاش کہ انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہوجائے۔ فیفا اور اے ایف سی کو بنیاد بنا کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے والو ںکے سامنے حقائق سامنے آجائیں گے جب فیفا اور اے ایف سی کی فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی کا وفد 26مئی کو پاکستان آئے گاکہ فیفا اور اے ایف سی کی فنڈنگ کو کس بیدردی سے لوٹا گیا ہے ملک کے تمام ادارے پاکستان سے الحاق رکھتے ہیں اور پاکستان کے آئن کے پابند ہیںان کا کوئی تعلق فیفا یا اے ایف سی سے نہیںوہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کو تسلیم کرتے ہیں لہٰذا ان اداروں سے منسلک کھلاڑی یا آفیشل ان کے احکامات کو ماننے کے پابند ہیں۔ انہیں استثنیٰ نہیں مل سکتا ۔ قومی ادارے متوازی فیڈریشن کے دباؤ میںنہیں آئیں گے۔