فراڈی دلہن، سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی
مسرت اللہ جان
کچھ عرصہ قبل ایک مقامی اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھاکہ ایک خاتون جو کہ وفاقی دارالحکومت میں رہائش پذیر تھی کو فراڈ اور جعل سازی کے جرم میں گرفتار کیا گیا تفصیلات میں پولیس کی جانب سے یہ بتایا گیا تھا کہ خاتون اپنے رشتہ داروں کیساتھ ملکر اپنی شادی من پسند رنڈے سے دل لگی کرتی اور پھر اس کی شادی ہوجاتی اوردلہن کے روپ میں شادی کے پہلے ہی دن خاتون سارا زیور اور رقم لیکر رفوچکر ہو جاتی اور یہ سلسلہ پتہ عرصہ دراز سے جاری تھا، خبر بھی ایک موقر اخبار میں شائع ہوئی اس کے بعد اس کیس کا کیا بنا، اس بارے میں خاموشی ہے کیونکہ ہمارے ہاں فالو اپ کی کوئی ٹرینڈ نہیں اسی باعث اس خاتون کا کیا قصہ ہوا یہ ابھی تک صیغہ راز ہی ہے.
بلاگ کا آغاز اس واقعے سے اس لئے کیا کہ خیبر پختونخواہ کے نئے نگران وزیرکھیل مطیع اللہ کو وزارت سپورٹس خیبر پختونخواہ کے مختلف جاری منصوبوں کے بارے میں گذشتہ روز بریفنگ دیدی گئی جس میں یہ بتایا گیا کہ حیات آباد سپورٹس کمپلیکس تقریبا تیار ہوچکا ہے اور ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں بھی پی ایس ایل کے میچز کرائے جائیں گے ساتھ میں مختلف نوعیت کے ہونیوالے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مقابلوں میں شامل کھلاڑیوں کی فہرستیں بھی بتا دی گئی کہ انٹر یونیورسٹی میں اتنے کھلاڑی سامنے نکلے. اور انٹر سکولز اور دیگر مقابلوں سے کم و بیش نکلنے والے نئے کھلاڑیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے.تاہم انہیں یہ نہیں بتایا کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے لگائی جانیوالے اتنے بڑی رقم اور کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجود خیبر پختونخواہ کے بیشتر کھلاڑی ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر ڈیپارٹمنٹ سے کیوں کھیلے. خیبر پختونخواہ کے ایسے کھیل جن پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ لاکھوں روپے تنخواہیں ضائع کررہی ہیں ان کے کھلاڑی کہاں پر غائب ہو گئے.یہ اور اس جیسے بہت سارے سوالات ہیں جو کہ کرنے کے ہیں.
مردان کے عاطف خان سے لیکر سوات کے محمود خان اور پشاور کے پہلے نگران وزیر سے لیکر موجودہ نگران وزیر کھیل تک کے اس سفر کو اگر دیکھا جائے تو بالکل بنے بنائی دلہن کا کردار ہی ہے یعنی چار وزراء اس کھیل کے گزر بھی گئے اور وزارتوں کے مزے بھی لے لئے مگر نہ تو ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم بنا اور نہ ہی حیات آباد سپورٹس کمپلیکس، ہردفعہ نئے وزیر کے دورے کے بعد یہی لارا ملتا ہے کہ اب کی بار پی ایس ایل میچ ہونگے اور اب کی بار ہونگے.اسی اب کی بار میں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی موجودہ حالت کیا ہے اور کیا وہ اس قابل ہے بھی نہیں، کیا اس میں بجلی کا نظام مکمل کیا گیایا نہیں اور کیا اس کیلئے صوبے کے پاس فنڈز ہے بھی نہیں لیکن ان دونوں جگہوں کو فراڈی خاتون کی طرح دلہن کو سجا کر پیش کرکے بے وقوف بنانے کا سلسلہ تاحال جاری ہے. ارباب نیاز اور حیات آباد کرکٹ سٹیڈیم کے نام پر ہونیوالے یہ ڈرامے کم و بیش اسی دلہن کی طرح ہے جو ہر بار نئے شوہر سے زیورات اور رقم لے جاتی ہیں.وزراء بھی نہیں پوچھتے، محکمے بھی کام کرتے ہیں اور ہمارے صحافی بھی صاحب لوگوں کی خوشنودی کی خاطر یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا.
ویسے وزارتوں اور کرسیوں کے اپنے ہی مزے ہیں لوگ اسی کرسی کے مزے کی خاطر بہت کچھ توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں کچھ عرصہ قبل راقم نے ایک سوال صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے رائٹ ٹوانفارمیشن کے تحت کیا تھا کہ وزارت سپورٹس کے زیر انتظام ہاسٹل میں کتنے لوگ رہائش پذیر ہیں، کب سے رہائش پذیر ہیں اور ان سے کتنی آمدنی ہوئی ہیں، جو لوگ رہائش پذیر تھے انہوں نے سوالات ایسے موڑ کر ددیدے کہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کیونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے جواب دیدیا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرتی ہیں اور یہاں پر کھلاڑی ٹھہرتے ہیں تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دیگر ڈیپارٹمنٹ کے کتنے لوگ اس وقت ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں، ان سے کتنی ریکوری ہوئی ہے اور بجلی، گیس اور رینٹ کی مد میں کتنے وصولی ہوئی، یہ سوال گول کردیا گیا. مزے کی بات یہی ہے کہ ہاسٹل کے وی آئی پی کمروں میں اب بھی مختلف ڈیپارٹمنٹس کے لوگ رہائش پذیرہیں اور ان کی رہائش کم و بیش ایک دہائی سے زائد ہو چکی ہیں لاکھوں روپے کرائے کی میں انہوں نے ڈیپارٹمنٹ کو دینے ہیں لیکن جن لوگوں کی ڈیوٹی لگی ہیں پیسے وصول کرنے کی وہ ” خوشامد”کے عادی ہیں اس لئے نہ کرایہ لے سکتے ہیں نہ ہی کمرے خالی کراسکتے ہیں ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ ڈیپارٹمنٹ کو کچھ مل جائے گا بلی کے خواب میں چھچھڑوں کے مترادف ہیں.
بلی کی چھچھڑوں والی صورتحال نگران وزیر کو پیش کی جانیوالی یہ رپورٹ بھی ہیں جس میں کم و بیش ڈھائی تین ہزار کھلاڑیوں کے حوالے سے انہیں آگاہ کیا گیا لیکن نگران وزیر یہ سوال پوچھ نہیں سکے کہ اگر ڈھائی تین ہزار کھلاڑی مختلف مواقع پر نکلے ہیں تو پھر یہ کہاں غائب ہوگئے جو نیشنل گیمز منعقدہ کوئٹہ مقابلوں میں کچھ نہیں کرسکے، کہاں گئے، کوئی یہ سوال کرنے کی ہمت رکھتا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے کس طرح صوبے کے کھلاڑیوں کو اپنی طرف سے کھلاڑی، اولمپک کے قانون کی خلاف ورزی کی، بعض ڈیپارٹمنٹ نے اپنی جیت کی خاطر دوسروں کیساتھ جھگڑے بھی کئے جس کی شکایت راقم نے اولمپک ایسوسی ایشن پاکستان کے سیکرٹری سے بھی کردی لیکن انہوں نے اس کیلئے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا، اب یہ کمیٹی کیا رپورٹ پیش کرے گی کب پیش کرے گی،
قوانین کی خلاف ورزی پر کیا ان سے میڈل لیا جائیگا یہ اور ان جیسے بہت سارے سوال ہیں جو عام لوگوں کے کرنے کے ہیں، کھلاڑیوں کے کرنے کے ہیں، کوچز کے کرنے کے ہیں اور خصوصا اپنے آپ کو شعبہ کھیل سے وابستہ رائٹروں کے کرنے کے بھی ہیں کہ یہ پوچھ سکیں کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی کیا ذمہ داری تھی، اولمپک کی کیا ذمہ داری تھی، کھلاڑیوں کی کیا ذمہ داری تھی، ایسوسی ایشنز کی کیا ذمہ داری تھی اور رہی ہے اور خود دوسروں پر قلم اٹھا کر لکھنے والے صحافیوں کی اپنی کیا ذمہ داری ہے، کیا انہوں نے نیشنل گیمز منعقدہ کوئٹہ میں پائی جانیوالی خامیوں، غلطیوں کی اپنی کوئی رپورٹ بنائی ہے،کسی غلط چیز کی نشاندہی کی.کہیں پر شیئر بھی کی ہیں یا پھر یہاں بھی ان کی "ڈنگ ٹپاؤ” پالیسی ہے