اسلام آباد (جی سی این رپورٹ)قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی گھٹنے کی انجری کے باعث پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈیشن سے باہر ہوگئے اور انجری کی وجہ سے کراچی میں پی ایس ایل فائنل کا کھیلنے کا ان کا خواب بھی ادھورا رہ گیا ہے۔
دنیائے کرکٹ میں کئی ایسے نامور کھلاڑی ہیں جنہیں اپنے کیرئیر کے عروج پر انجری کا شکار ہونے کی وجہ سے کرکٹ کو خیرباد کہنا پڑا۔ ایسے کھلاڑیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
شین بونڈ:
نیوزی لینڈ کے مایہ ناز فاسٹ بولر شین بونڈ کو نیوزی لینڈ کا تیز ترین بولر قرار دیا جاتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں سر رچرڈ ہیڈلے کے بعد کیویز کا سب سے عظیم بولر قرار دیا گیا۔
2003 میں اپنے کیرئیر کے عروج پر شین بونڈ نے اس وقت سب کی توجہ حاصل کی جب دنیائے کرکٹ کے عظیم فاسٹ بولر شعیب اختر اور آسٹریلیا کے بریٹ لی کا طوطی بولتا تھا۔
شین بونڈ نے اپنے 9 سالہ کیرئیر میں 18 ٹیسٹ اور 82 ایک روزہ میچز میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کی اور ابھی ان کا کیرئیر باقی تھا کہ کمر درد کا شکار ہوئے اور کیرئیر کے عروج کے باوجود 2010 میں انہیں کرکٹ کو خیرباد کہنا پڑا۔
نیتھن بریکن:
بائیں ہاتھ سے بولنگ کرنے والے آسٹریلیا کے فاسٹ بولر نیتھن بریکن نے اس وقت ڈیبیو کیا جب گینکروز ٹیم میں مایہ ناز گلین میگرا، بریٹ لی اور شین وارن بولنگ کے گرو مانے جاتے تھے۔ نیتھن بریکن 2008 کی آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں بہترین بولر قرار پائے اور 2009 میں انہیں آسٹریلیا کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
اپنے کیرئیر کے عروج پر نیتھن بریکن گھٹنے کی انجری سے لڑتے رہے اور تھک ہار کر انہوں نے گھٹنے کا آپریشن کرانے کا فیصلہ کیا اور 17 ستمبر 2009 کو اپنا آخری ایک روزہ میچ کھیلنے کے بعد کرکٹ کو خیرباد کہا۔
محمد زاہد:
1990 کی دہائی کے اوائل میں قومی کرکٹ ٹیم میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ سے ڈیبیو کرنے والے فاسٹ بولر محمد زاہد نے 11 وکٹیں لے کر ٹیم میں جگہ بنائی جنہیں پاکستان کی فاسٹ بولنگ میں اچھا اضافہ قرار دیا گیا۔ تاہم بہت جلد ہی وہ کمر کی انجری کا شکار ہوئے جس کے بعد 1999 میں انہوں نے کم بیک کیا لیکن اپنا جادو نہ چلا سکے۔
محمد زاہد نے پاکستان کی جانب سے 5 ٹیسٹ اور 11 ایک روزہ میچز میں گرین شرٹس کی نمائندگی کی، اور انہیں جنوری 2003 میں بھی موقع دیا گیا لیکن وہ سودمند ثابت نہ ہوئے اور انجری کی وجہ سے اپنے مختصر کیرئیر کے بعد کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔
ثقلین مشتاق:
اسپن بولنگ میں ‘دوسرا’ کو متعارف کرانے والے پاکستانی آف اسپنر ثقلین مشتاق 90 کی دہائی میں کامیاب ترین اسپن بولر بن کر سامنے آئے۔
ایک روزہ کرکٹ میں تقلین مشتاق کو تیز ترین 100 اور 200 وکٹیں حاصل کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور انہوں نے کئی میچز میں اپنی گھومتی ہوئی بولنگ کی بدولت ٹیم کو تنہا میچز بھی جتوائے۔
ثقلین مشتاق بائیں گھٹنے کی انجری کا شکار ہونے کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ سال تک کرکٹ سے دور رہے اور 2004 میں انہوں نے سرجری کروائی اور مارچ 2004 میں ہی اس وقت کے کپتان انضمام الحق کے بے حد اصرار پر انہوں نے بھارت کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
ثقلین مشتاق ملتان ٹیسٹ میں ایک مرتبہ پھر انجرڈ ہوئے اور یہ میچ ان کے کیرئیر کا آخری میچ ثابت ہوا جس میں انہوں نے 204 رنز کی بدولت ایک وکٹ حاصل کی اور ورندر سہواگ نے پاکستان کے خلاف 309 رنز بنائے۔
اینڈریو فلنٹوف:
انگلینڈ کے سابق کپتان اور مایہ ناز آل راؤنڈر اینڈریو فلنٹوف نے 79 ٹیسٹ، 141 ون ڈے اور 7 ٹی ٹوئنٹی میچز میں انگلینڈ کی نمائندگی کی۔فلنٹوف نے 1998 میں انگلینڈ کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں ڈیبیو کیا اور 11 سالہ مختصر کیرئیر میں اپنی ٹیم کو کئی اہم کامیابیاں دلوائیں۔
آل راؤنڈر فلنٹوف کئی بار گھٹنے کی انجری کا شکار ہوئے تاہم انہوں نے کرکٹ کھیلنا جاری رکھی اور ستمبر 2010 میں فلنٹوف نے خطرناک گھٹنے کی انجری کی وجہ سے کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا۔
گریم اسمتھ:
جنوبی افریقا کے سابق کپتان گریم اسمتھ نے 117 ٹیسٹ، 197 ون ڈے اور 33 ٹی ٹوئنٹی میچز میں پروٹیز ٹیم کی نمائندگی کی، 2002 میں اسمتھ نے ٹیسٹ اور ون ڈے کیرئیر کا آغاز کیا اور اپنے کیرئیر کے عروج پر وقفے وقفے سے انجری کا شکار ہوتے رہے جس کی وجہ سے 2014 میں انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کو چھوڑنے کا اعلان کیا تاہم وہ مختلف لیگز کھیلتے رہے۔
2014 میں ہی اسمتھ نے ایک لیگ سے تین سال کا معاہدہ کیا لیکن گھٹنے کی انجری کی شدت میں اضافے کی وجہ سے وہ مزید کرکٹ نہ کھیل سکے۔