سری لنکا کو کمزور حریف سمجھنا ٹیم کی غلطی ہو گی۔۔

عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں قومی کرکٹ ٹیم کا مقابلہ سری لنکا کے ساتھ ہونا ہے، دونوں ٹیمیں اس سے قبل سات بار عالمی کپ مقابلوں میں مدمقابل آئیں اور ان تمام مقابلوں میں پاکستان کی ٹیم نے فتح حاصل کی ہے، اس لحاظ سے پاکستان کی ٹیم کا عالمی کپ مقابلوں میں سری لنکا کیخلاف پلڑا کافی بھاری دکھائی دیتا ہے تاہم یہ کہنا کہ سری لنکا پاکستان کے مقابلے میں کمزور حریف ہے غلط ہوگا اور اگر ایسا سوچ کر قومی کرکٹ ٹیم میدان میں اتری تو اس کو اس کی بھاری قیمت میں ادا کرنا پڑے گی، اس میچ سے قبل پاکستان کی ٹیم نے ٹورنامنٹ کی فیورٹ اور میزبان ٹیم انگلینڈ کیخلاف کامیابی حاصل کی تھی جبکہ سری لنکا کی ٹیم نے افغانستان کیخلاف بارش سے متاثرہ میچ میں دلچسپ مقابلے کے بعد کامیابی حاصل کی تھی،دونوں ٹیموں نے اب تک ٹورنامنٹ میں دو دو میچ کھیلے ہیں سری لنکا کو پہلے میچ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ پاکستان کی ٹیم کو افتتاحی معرکے میں کالی آندھی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ٹیم نے پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست کے بعد انگلینڈ کے خلاف کامیابی حاصل کرکے ٹورنامنٹ میں شاندار کم بیک کیا ہے تاہم اس جیت نے قومی کرکٹ ٹیم کی کئی خامیوں کو ایک بار پھر پردے کے پیچھے چھپا دیا ہے جن کو دور کرنا بہرحال ضروری ہے ورنہ آئندہ میچوں میں اس کا ٹیم کو نقصان ہوسکتا ہے، قومی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کیخلاف ریکارڈ 348رنز بنائے تاہم اگر دیکھا جائے تو جس طرح کا آغاز ٹیم کو ملا تھا اور جس طرح کی صورتحال درمیانی اوورز میں آئی تھی قومی بیٹنگ لائن اس سے کئی بہتر سکور کرنے کی پوزیشن میں تھی مگر یہ خامی واضح طور پر دکھائی کہ تیز رنز بنانے کی صلاحیت اور تجربہ کی ٹیم میں کمی ہے کوچ مکی آرتھر کو اس جانب توجہ دینی ضرورت ہے اور بیٹنگ لائن کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جب آپ کے پاس اوورز بھی موجود ہوں اور پیچھے وکٹیں بھی باقی ہوں تو سکور کو تیز کس طرح کرنا ہے اس خامی کو دور کرکے قومی کرکٹ ٹیم کسی بھی بائولنگ لائن کیخلاف ایک اچھی اور وننگ ٹوٹل کرنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ عالمی کپ کیلئے جس طرح کی وکٹیں بنائی گئی ہیں اس پر ہماری بائولنگ لائن اب تک اس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی ہے جس طرح کی توقعات اس سے وابستہ تھیں اس کی وجہ سلو وکٹیں بھی ہیں اور کچھ بائولرز کا آئوف آف ردھم ہونا بھی ہے جن میں محمد عامر سرفہرست ہیں بلاشبہ محمد عامر وکٹیں بھی لے رہے ہیں مگر وہ اس سے بہت بہتر کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ٹیم اور قوم ان سے یہی توقع کر رہی ہے کہ وہ اپنے اصل ردھم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تاکہ آئندہ میچوں میں ٹیم ان کی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکے، قومی ٹیم کا سپین بائولنگ ڈیپارٹمنٹ بھی ابھی تک وہ جادو نہیں جگا سکا ہے جس کیلئے اس کی شہرت ہے، شاداب خان کے ساتھ سینئر وتجربہ کار شعیب ملک اور محمد حفیظ کو ٹیم کیلئے توقعات کے مطابق کارکردگی دکھانے کیلئے بہت زیادہ محنت کرنا پڑ رہی ہے، امید ہے کہ جوں جوں میچوں کا سلسلہ آگے بڑھے گا قومی بائولرز اپنی خامیوں اور غلطیوں سے سبق سیکھیں گے، گو کہ سری لنکا کی ٹیم اس وقت ماضی کے مقابلے میں اتنی مضبوط نہیں ہے لیکن بہرحال سابق عالمی چیمپئن کو کسی طور پر ہلکا نہیں لیا جاسکتا خاص طور پر افغانستان کیخلاف جس طرح ان کی بائولنگ اور فیلڈنگ نے ایک کم ہدف کا دفاع کیا وہ واقعی ایک شاندار کارکردگی ہے، جہاں تک پاکستان بیٹنگ لائن کا تعلق ہے وہ توپریکٹس میچ میچ کے دوران افغانستان کی سپن بائولنگ کے جال میں پھنس کر رہ گئی تھی اس لحاظ سے اس کیلئے سری لنکا کے سپنرز کیخلاف سکور کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا،دونوں ٹیموں کے اس اہمیت سےبھرپور میچ میں سب سے زیادہ خطرہ موسم کی جانب سے بھی ہے۔آج میچ کے دن بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔میچ کے لیے پاکستانی ٹیم کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے اور میچ بارش کے سبب نہیں ہو پاتا تو یہ پاکستانی ٹیم کے لیے بڑا دھچکا ہو گا کیونکہ اس صورت میں دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل جائے گا۔برسٹل میں جاری بارش کے پیش نظر میچ ہونے کی صورت میں وکٹ باؤلرز کے لیے سازگار ہو گی اور ٹاس جیتنے والی ٹیم پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کر کے اضافی فائدہ حاصل کر سکتی ہے۔

error: Content is protected !!