لارڈز کے میدان سے

23 جون ورلڈ کپ کے مہا مقابلوں میں سے ایک اہم مقابلہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کا تھا اس میچ کا انتظار میں پچھلے کئی دنوں سے کر رہا تھا ۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ میچ لندن کے تاریخی اسٹیڈیم لارڈز میں ھونے جارہا تھا ۔لارڈز میں میچ دیکھنا،کوور کرنا اور کھیلنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ھے ۔لندن کے لارڈز سٹیڈیم کو ہوم آف کرکٹ کہا جاتا ہے،کئی یادگار اور تاریخی لمحات کا امین یہ میدان 1787سے 1814کے درمیان مکمل ہوا،پہلا ٹیسٹ میچ میزبان انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مابین 21سے 23جولائی 1884تک کھیلا گیا، ایشز کے کئی یادگار مقابلوں کیساتھ انٹرنیشنل ایونٹس کے فائنلز کی میزبانی کا اعزاز بھی لارڈز کو حاصل ہے۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں یہاں مدمقابل ہورہی ہیں، دونوں ٹیموں کے مابین ابھی تک 78میچ کھیلے گئے تھے جن میں سے پاکستان نے صرف 27جیتے اور 50میں مات کھائی،ایک مقابلہ بے نتیجہ رہا،گزشتہ سیریز میں جنوبی افریقہ نے گرین شرٹس کو 3-2سے مات دی تھی، حالیہ ورلڈکپ میں دونوں ٹیموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، جنوبی افریقہ کے 6 میچز میں 3پوائنٹس ہیں، پاکستان نے 5مقابلوں میں 3پوائنٹس جوڑے ہیں، دونوں ٹیموں کی سیمی فائنل میں دوڑ کے لیے یہ میچ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا تھا جنوبی افریقہ تو سمجھیں ٹورنامنٹ سے باہر ھو چکی ھے لیکن پاکستان کو یہ میچ جتنا بہت ضروری تھا
انڈیا سے شکست کے بعد جتنی تنقید پاکستانی ٹیم پر ھوئی اس سے وہ سخت پریشان تھے اب حالات ایسے ھو چکے تھے کہ اگر کوئی بھی کھلاڑی باہر گھومنے کے لیے جاتا ھے تو اسے نازیبا الفاظ کا سامنا کر پڑ سکتا تھا۔ بہرحال انڈیا کے میچ کے بعد ٹیم نے تین آرام کیا اور پھر تین دن خوب جم کر پریکٹس کی۔
میچ یوکے وقت کے مطابق صبع ساڑھے دس بجے تھا لیکن ہمیں اپنی صحافتی زمہ داریاں پورا کرنے کے لیے کم از کم دو گھنٹے پہلے پہنچنا ضروری تھا میں صبع سات بجے جاگ گیا تھا تیار ھو کر آٹھ بجے لندن انڈر گراونڈ ٹرین کے زریعے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد دو ٹرین تبدیل کر کے سینٹ جان ووڈ اسٹیشن پہنچ گیا
اسٹیدیم کے باہر پہنچتے ہی میں نے دیکھا ہزاروں لوگ اسٹیڈیم کے بر موجود تھے ۔یہ لوگ برٹش سیٹیزن ھیں لیکن اس کے باوجود ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ھیں ۔وطن کی مٹی کو کون بھلا سکتا ھے بہرحال میں اسٹیدیم کے باہر اپنی ڈیوٹی پر لگ گیا کیونکہ ہمیں میچ سے پہلے کافی کچھ اپنے اداروں میں بھیجناپڑتا ھے ۔
جب میں میڈیا گیلری پہنچا تو وہاں آئی سی سی کے عملے نے خوش آمدید کہا مجھے فوری سیٹ نمبر دے دیا گیا میں اپنا بیگ اپنی سیٹ ہر رکھ کر میڈیا لاؤنج میں آگیا جہاں دو سابق لیجینڈ وسیم اکرم اور وقار یونس بیٹھے گپیں لگا رہا تھے۔جبکہ دیگر صحافی ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔لارڈز کی میڈیا گیلری ایک کیپسول کی مانند بنی ھوئی جہاں آپ لفٹ اور سیڑھیوں کے ذریعے جاتے ھیں لیکن کافی بلندی پر ھے ۔دنیا کی خوبصورت ترین میڈیا گیلری میں سے ایک ھے ۔دبئی کی میڈیا گیلری میں اپنی مثال آپ ھے جبکہ لارڈز کی طرز کی میڈیا گیلری آسٹریلیا کے شہر برسبین میں دیکھی تھی لیکن وہاں میڈیا گیلری کے آگے تماشائی بھی ھوتے تھے جس کی وجہ سے وہ نظارہ نظر نہیں ٹو ھے جو لارڈز میں ھے۔
پاکستان کے ہر بڑے ٹی وی چینل اور اخبارات سے میڈیا کے افراد یہاں موجود تھے ۔ سب سے ذیادہ پاکستانی صحافی ہی تھے جبکہ کچھ برٹش اور ساؤتھ افریقہ کے بھی نظر آئے۔آئی سی سی نے صحافیوں کے لیے حلال کھانے کا بندوبست کیا ھوا تھا میچ شروع ھونے سے آخر تک ان کا کچن چلتا رہا ۔
میچ کے دوران میں تماشائیوں کے بیج بھی جا بیٹھے کیونکہ میڈیا گیلری کے نیچے اوورفلو میں ہماری جگہ موجود تھی جہاں کراووڈ بھی ساتھ تھے ان کے ساتھ گپ شپ چلتی رہی
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور بھی میچ دیکھنے اسٹیڈیم آئے جبکہ فلم سٹار عدنان صدیقی اور ہمایوں سعید بھی ٹیم کو سپورٹ کرنے لارڈز میں موجود تھے۔
پہلی اننگز کے خاتمے کے بعد جب ہم باہر آئے تو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی بیٹے سلمان سے ملاقات ھوئی ان کے ساتھ دو اور بھی لوگ تھے جو شاہد انکی سیکورٹی کے ھوں گے ۔سلمان کے ساتھ کافی دیر تک آف دی ریکارڈ بات ھوئی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر کافی خوش تھے ان سے انٹرویو کے لیے بات کی لیکن انہوں نے کہا میں انٹرویو نہیں دوں گا البتہ پاکستان کے حالات ان کا پاکستان میں ٹائم گزارنا اور دیگر موضوع پر گپ شپ ضرور ھوئی ۔سلمان انتہائی سلجھا ھوا لڑکا لگا اور انتہائی ذمہ داری سے گفتگو کرتا رہا وہ عام لوگوں میں بیٹھ کر میچ دیکھ رہے تھے
لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں پاکستان کرکٹ ٹیم جب میدان میں اتری تو کھلاڑیوں کااعتماد ہمالیہ کو چھو رہا تھا۔ میچ سے قبل تین دن کی پریکٹس سے بلے بازوں نے اپنی خامیوں کو جو درست کرنے کی کوشش کی اس کا عملی مظاہرہ میدان میں اترنے کے بعد نظر آیا۔ پاکستان کی پہلی وکٹ 15 ویں اوور میں فخر زمان کی گری تب تک سکور بورڈ پر پاکستان نے 81 رنز سجا لیے تھے۔ یہ کسی بھی ون ڈے ٹیم کیلئے آئیڈل آغاز ہوتا ہے۔ فخر زمان 44 بنا کر آؤٹ ہوئے حالانکہ نصف سنچری میں یہ سکور تبدیل ہونا چاہیے تھا اور پھر امام الحق بھی 44 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ بعد میں بابر اعظم مڈل آرڈر پوزیشن پر کھیلتے ہوئے 69 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
اس ورلڈ کپ میں اب تک جو ٹیم سیمی فائنل کی ریس میں آگے نکل چکی ہیں ان کے ٹاپ آرڈرز نے سکور کیے ھیں ۔کسی بھی ون ڈے ٹیم کے اگر پہلے تین بیٹسمین لمبا سکور کریں تو اس ٹیم کو نہیں روکا جاسکتا۔ انگلینڈ کے جیسن روئے ، جانی بریسٹو اور جوئے روٹ سنچریاں سکور کرچکے ہیں، اسی طرح آسٹریلیا کی جانب سے ڈیوڈ وارنر، اورن فنچ ، سٹیون سمتھ سنچریاں سکور کرچکے ہیں ، بھارت کی جانب سے روہت شرما دو سنچریاں سکور کرچکے ہیں جبکہ وایرٹ کوہلی بھی لگاتار تین نصف سنچریاں سکور کرچکے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن بھی لگاتار دو سنچریاںسکور کرچکے ہیں۔ پاکستانی ٹاپ آرڈر نصف سنچریاں تو سکور کررہے ہیں مگر سنچری میں اپنی اننگز کو نہیں تبدیل کرسکے جس کا ٹیم کو ابتدائی میچز میں نقصان ہوا ہے۔ پاکستانی بلے بازوں کو اپنی بیٹنگ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، حارث سہیل کو جنوبی افریقہ کیخلاف موقع دیا گیا اس نے 89 رنز کی اننگز کھیل کر ٹیم میں اپنا انتخاب درست ثابت کردکھایا۔ حارث سہیل کی اننگز کی بدولت پاکستان ٹیم جنوبی افریقہ کیخلاف 309 رنز کا ہدف سکور بورڈ پر سجایا اور پھر باؤلرز اس ہدف کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ شاداب خان بھی جنوبی افریقہ کیخلاف نپی تلی باؤلنگ کرتے دکھائی دئیے ، اسی طرح کی کارکردگی شاداب سے بھارت کیخلاف میچ میں درکار تھی جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ محمد عامر کی کارکردگی میں مزید نکھار آتا جارہا ہے، ہاشم آملہ کو اپنے پہلے اوور میں پولین بھیج کر عامر نے حریف ٹیم کو بیک فٹ پر ڈال دیا۔ اور وہاب کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، وہاب ریاض کی ریورس سوئنگ جنوبی افریقی ٹیل اینڈرز کی سمجھ سے باہر تھی اور پاکستان باآسانی جنوبی افریقہ کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔
اب پاکستان کرکٹ ٹیم کا اگلہ معرکہ نیوزی لینڈ کیخلاف ہے۔ اس میچ میں پاکستان ٹیم کو لازمی فتح چاہیے اور سیمی فائنل تک رسائی کیلئے انگلینڈ کی اگلے تینوں میچز میں شکست پاکستان ٹیم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ انگلینڈ نے بھارت ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کیخلاف کھیلنا ہے اور اگر دو میچز بھی انگلینڈ کو شکست ہوگئی تو پاکستان ٹیم سیمی فائنل کی پوائنٹس ٹیبل پر چوتھے نمبر پر آسکتی ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں کچھ بھی ممکن ہے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک بار پھر سیمی فائنل میں مد مقابل آسکتے ہیں

error: Content is protected !!