عجوبے فیصلے۔
1۔ کلب آئین میں صاف صاف لکھا ہے کہ کسی بھی کلب کا صدر نہ سرکاری ملازم ہوگا، نہ نیم سرکاری محکمے یا کارپوریشن کا ملازم ہوگا، نہ کوئی ایم پی اے یا ایم این اے ہوگا، نہ کونسلر ہوگا، نہ کسی پارٹی کا عہدیدار ہوگا۔
اب احسان مانی صاحب سے کون پوچھے کہ جب ان میں سے کچھ نہ ہوگا تو اسکا مطلب ہے یا تو کھرب پتی ہوگا اور یا پھر بیروزگار ہوگا۔۔
کیا پشین میں کوئی ایک بھی ایسا کلب ہے جسکا عہدیدار سرکاری ملازم نہ ہو یا پھر کسی پارٹی سے تعلق نہ رکھتا ہو؟
دوسرا انوکھا فیصلہ
کلب کرکٹ کو 3 کیٹیگریوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر کیٹیگری کے لیے الگ الگ لوٹ مار فیس مقرر کیا گیا ہے۔
رجسٹریشن فیس 5000،
ہر ووٹنگ ممبر کا ممبرشپ فیس 5000، اگر 3 ممبرز ہیں تو 15000، اگر 10 ممبرز ہیں تو 50 ہزار اور اگر پندرہ ممبرز ہیں تو 90 ہزار
ہر کھلاڑی کا 250 روپے رجسٹریشن فیس 20 کھلاڑیوں کے 5000
وہ کلب جو پہلے ایفیلیشن فیس کے مد میں 2500 جمع کر کے ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن کا ہر ایونٹ کھیل سکتا تھا اب وہ کم از کم 25 ہزار جمع کرے گا
وہ کلبز جو ان ایکٹیو کٹیگری میں تھے اور پی سی بی کا ہر ایونٹ کھیل سکتے تھے وہ 4000 ہزار روپے سالانہ فیس میں کھیل لیتے تھے اب وہ اگر ووٹنگ ممبر کے لیے کوشش کرتا ہے تو کم از کم 60 ہزار روپے جمع کرے گا
جو کلب فل ممبرشپ کی کوشش کرے گا اسکو کم از کم 90 ہزار روپے جمع کرنے ہونگے۔
اب آپ سب بتائیں کہ پشین میں کتنے فیصد لوگ یہ لوٹ مار برداشت کر سکتے ہیں
تیسرا انوکھا فیصلہ
ایسوسی ایٹ ممبر کے لیے لیول ون کا کوچ لازمی ہے اور پورے پشین میں 35 کلبز کے ہوتے ہوئے بمشکل 5 یا 6 ایسے پلیئرز ہونگے جن نے کے پاس نہ یہ کوچنگ سرٹفکیٹ ہے اور مزے کی بات یہ کہ وہ سب کے سب اپنے کلبز میں بحیثیت پلیئرز کھیلتے ہیں اب وہ کوچ ہونگے یا پلیئرز؟
فل ممبر کو تو کوچ کے ساتھ ساتھ ایک اپنا گراونڈ، فٹنس کلب، کم از کم تین پچز اور اس پر معیاری نیٹس۔ انتظامی امور چلانے کے کیے دفتر ہو۔
کیا یہ فل ممبرشپ کا ہم خواب دیکھ سکتے ہیں؟
73 سال بعد بھی ہمیں سرکار کی جانب سے ایک گراونڈ نہیں ملا، ایک پریکٹس نیٹ ہمارے لیے ایک خواب ہے، ڈی سی اے آفس کے لیے کمرہ کرائے پر لیکر 10، 10 مہینے مالک مکان کے قرضدار ہوتے ہیں اور یہ لوگ شیخ چلی بن کر ایسے سوہانے خواب دکھا رہے ہیں
اب آتے ہیں اس پر کہ اسکے بدلے ہمیں کیا ملے گا؟؟؟؟
چند امیر لوگوں کو اجارہ داری، کرکٹ ان امیروں تک محدود ہوگا، ڈسٹرکٹ کے انڈر19 یا سینیر ٹیم میں اسکے لڑکے لازمی جائیں گے، ویسے ہم سب پہلے بھی کوئی فرشتے نہیں تھے لیکن اس نظام کے آنے سے کرکٹ اتنا محدود ہوگا کہ چند کلبز تک رہ جائے گا
اب یا تو ہم بزدل ہیں جو اس پر سر تسلیم کیے جا رہے ہیں اور آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں یا پھر ہم مالا مال ہیں اور ان تمام شرائط کو پورا کر سکتے ہیں۔
یہ سراسر ظلم ہے اور اسکے خلاف آواز اٹھانے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے۔ اگر ہم ہمت نہیں کریں گے تو دب جائیں گے
آئیں ہم سب کلب لیول سے احتجاج کا آغاز کریں۔
قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے