
کھیلوں میں سب سے پہلے حفاظت – فیڈریشنز کی بنیادی ذمہ داری
تحریر: کھیل دوست، شاہد الحق
میڈلز، ٹرافیاں اور ریکارڈز سے بڑھ کر کھیلوں کی بنیاد کھلاڑیوں کی حفاظت ہے۔ کھلاڑی صرف مقابلے میں حصہ لینے والے نہیں ہوتے بلکہ وہ انسان ہیں جو اپنی زندگیاں اس کھیل کو دیتے ہیں،
شائقین کو محظوظ کرتے ہیں اور اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ جب ان کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو جائے تو کسی بھی مقابلے کی ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔
حال ہی میں CMAS سیماس فری ڈائیونگ ورلڈ چیمپئن شپ، مائٹکاس (یونان) میں یہ حقیقت خوفناک انداز میں سامنے آئی۔ روسی فری ڈائیور اینڈرے متوینکو نے گہرائی میں ڈائیو کے بعد بلیک آؤٹ کا سامنا کیا اور شدید نیورولوجیکل مسائل کا شکار ہوگئے۔ وہاں فوری طور پر ہائپربیرک چیمبر دستیاب نہ تھا،
اسپتال پہنچانے میں تاخیر ہوئی اور فیڈریشن کی جانب سے شفاف اطلاع نہ دینے نے صورتحال کو مزید خطرناک بنا دیا۔ کئی صف اول کے کھلاڑیوں نے اس کے بعد احتجاجاً چیمپئن شپ سے دستبرداری اختیار کی اور یہ پیغام دیا: زندگی خطرے میں ڈال کر جیتنے والا کوئی میڈل قبول نہیں۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی میں کئی کھیلوں نے ایسی تلخ یادیں دیں:
باکسنگ میں 1982 میں جنوبی کوریا کے فائٹر کم ڈک کو کی ری مینچینی کے ساتھ فائٹ کے بعد موت نے دنیا کو ہلا دیا۔ اس سانحے نے قوانین میں تبدیلیاں کرائیں، فائٹ راؤنڈز کم کیے گئے اور میڈیکل نگرانی سخت کی گئی۔ پاکستان میں بھی کئی بار باکسنگ کے کھلاڑی متاثر ھو چکے ھیں جبکہ ایک بہترین باکسرز کی موت بھی واقع ھو چکی ھے۔
ایم ایم اے (Mixed Martial Arts) میں متعدد فائٹرز دماغی چوٹوں کا شکار ہوئے۔ 2016 میں ڈبلن میں جواؤ کاروالو کی موت نے آئرلینڈ میں حفاظتی پروٹوکولز کو ازسر نو ترتیب دینے پر مجبور کیا۔
ویٹ لفٹنگ اور ریسلنگ جیسے کھیلوں میں بھی کھلاڑی اوور ایکسرشن، ڈی ہائیڈریشن یا ممنوعہ ادویات کے باعث بے ہوش یا جان لیوا حالت میں پہنچے، لیکن اکثر فوری طبی سہولت نہ مل سکی۔
یہ تمام واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حفاظت کے بغیر کھیل دراصل غفلت ہے، مقابلہ نہیں۔
یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ 2016 میں جب پاکستان میں بین الاقوامی کھیلوں کی بحالی کے لئے پروفیشنل ریسلنگ انٹرٹیمنٹ کے ایونٹس کے کیلئے پلان بنا رہا تھا تو سب سے زیادہ فوکس علمی معیار کی حفاظتی خدشات کو سب سے زیادہ اہمیت دی
اور اس وقت کھیلوں کے ہر ایونٹ کے لیے عالمی حفاظتی چیک لسٹ مرتب کی جو ہر ایونٹ کے لئے چاہے مقامی ہو یا عالمی، کے لیے درج ذیل حفاظتی اصول لازمی ہونے چاہئیں:
1. مکمل رسک اسیسمنٹ – کھیل کے مطابق خطرات کی جانچ (باکسنگ میں کنکشنز، فری ڈائیونگ میں بلیک آؤٹ وغیرہ)۔
2. ماہر میڈیکل ٹیم – سرٹیفائیڈ ڈاکٹرز، پیرا میڈکس اور کھیل کے مطابق ماہرین (جیسے نیورولوجسٹ یا ڈائیونگ فزیشن)۔
3. ایمرجنسی ساز و سامان – ہائپربیرک چیمبر، آکسیجن کٹس، ایمبولینس اور ڈیفبریلیٹر کا ایونٹ میں ہونا۔
4. اداروں کا باہمی رابطہ – مقامی اسپتالوں اور ٹراما سینٹرز کو پہلے سے الرٹ کرنا۔
5. کھلاڑیوں کی میڈیکل اسکریننگ – مقابلے سے قبل فٹنس سرٹیفکیٹ، دل اور دماغ کے ٹیسٹ خاص طور پر خطرناک کھیلوں کے لیے۔
6. واضح کمیونیکیشن پروٹوکولز – حادثے یا واقعے پر فوری اور شفاف اطلاع۔
7. سیفٹی ڈرلز – ایونٹ سے پہلے تمام عملہ اور میڈیکل ٹیم کی ایمرجنسی مشقیں۔
8. آزاد حفاظتی افسران – ایسے ماہرین جو حالات خطرناک ہونے پر ایونٹ روک سکیں۔
9. انشورنس اور فلاحی ضمانتیں – کھلاڑیوں، عملے اور آفیشلز کے لیے حادثاتی اور طویل مدتی انشورنس۔
10. شائقین اور آفیشلز کی حفاظت – محفوظ انٹری و ایگزٹ، رش کنٹرول اور ایمرجنسی ایویکوایشن پلان۔
پاکستانی سپورٹس میں خاص طور پر عالمی معیار کو اپنانے کی ضرورت۔
پاکستان کے لیے، جہاں کھیل عالمی سطح پر اپنی ساکھ دوبارہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، یہ سبق بہت واضح ہے۔ کسی بھی NOC (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ) کے اجرا سے پہلے فیڈریشنز اور حکام کو چاہیے کہ:
حفاظتی آڈٹ کو لازمی قرار دیں۔
بین الاقوامی میڈیکل اور سکیورٹی پروٹوکولز کی تعمیل یقینی بنائیں۔
ایمرجنسی سہولیات، انشورنس اور ادارہ جاتی تعاون کے ثبوت طلب کریں۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ میں ایک آزاد مانیٹرنگ سیل قائم کریں جو ہر ایونٹ کی حفاظت کی توثیق کرے۔
کھلاڑیوں، شائقین اور آفیشلز کی زندگی کو وقتی شہرت یا سیاسی فوائد پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر سانحہ کھیلوں سے اعتماد کم کرتا ہے جبکہ ہر حفاظتی قدم کھیلوں کی اصل روح کو مضبوط کرتا ہے۔
فیڈریشنز کی اصل ذمہ داری صرف چیمپئن پیدا کرنا نہیں بلکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ حفاظت کوئی اضافی پہلو نہیں بلکہ کھیلوں کی بنیاد ہے۔
شاہد الحق ; اسپورٹس فلانتھراپسٹ | سینئر اسپورٹس جرنلسٹ | فٹنس و ایونٹ ایکسپرٹ ای میل: spofit@gmail.com
یوٹیوب چینل: SPOFIT



