تحریر سید ابرار
کرکٹر وزیراعظم کے دور میں چئیرمین کرکٹ بورڈ احسان مانی اور چیف ایگزکٹو آفیسر وسیم خان نے پاکستان کرکٹ کو اس طرح تباہ کیا کہ دشمن بھارت کا بال ٹھاکرے نہ کرسکے۔ اسکی تفصیلات اب پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے میں تو صرف چند مثالیں دیکر آپ کو یاد دہانی کراتا ہوں
1, کرکٹ کو محدود کیا سولہ ریجن کو ختم کرکے چھ ریجن بنا دیئے۔
2 ، ڈیپارمنٹل کرکٹ کو ختم کرکے ہزاروں کرکٹرز ،امپائرز ،کوچز ، ٹرینرز ، ڈاکٹرز ، گراونڈمینز ، کا معاشی قتل عام کیا گیا
3 ،گراس روٹ کرکٹ یعنی کلب کرکٹ کو سابقہ کرکٹ آرگنائزر کے بغض میں بند کردیا گیا ۔ کچھ سابقہ پالشیئے مالشیئے اسوقت ان پیراشوٹر کو سابقہ مخالفین آرگنائزر کے خلاف جعلی مقدمے قائم کرنے کی ترغیب بھی دیتے رہے اور آج پروونشل ایسوسی ایشن میں عہدے بھی حاصل کرچکے ہیں جنکو عہدے نہیں ملے وہ اب وسیم خان اور احسان مانی کو میسج کرکے پیراشوٹر کہ رہے ہیں اور اب انکو بے نقاب کرنے کی بات کررہے ہیں اور اعتراف کر رہے ہیں کہ آپ نے جو آئین بنایا ہے وہ قابل عمل ہی نہیں اور پیراشوٹر کے چہرے اپنی پارٹی کے سامنے بے نقاب کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
4 ،کرکٹ کو بھی گندی سیاست سے پراگندہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی سے منسلک اور چند ایک کو چھوڑ کر سب داغدار لوگوں کو چھ ایسوسی ایشن کی ایڈمنسٹریشن میں لگایا گیا ہے ۔ کب تک تم لوگ زندہ رہوگے ؟ کب تک اقتدار میں رہوگے اور سب کو لوٹتے رہوگے ؟ 55 لوگوں کا جتھہ نیوزی لینڈ جاتا ہے وائٹ واش ہوکر آتا ہے اور پریس کانفرنس اتنی بے شرمی سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں ٹیم کی کارکردگی سے مطمعن ہیں۔ 45 لوگوں کو انگلینڈ کا ٹور کرایا جاتا ہے پورے ٹور میں صرف ایک T20 میچ جتتے ہیں اور بے شرمی سے کہتے ہیں ٹیم نے اچھا پرفارم کیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں م کروڑوں روپے لگا کر دوروں میں یہ اچیومنٹ ہے تو کسی عام پاکستانی کے حوالے کردو وہ مفت میں یہ کام کردیگا ۔ یہ درجنوں کوچز رکھنے کی ضرورت کیا ہے ؟
5 ، پی ایس ایل کے متعلق ممبران اسمبلی نے بھی جوئیے اور دیگر کرپشن پر مبنی حقائق وزیراعظم کے گوش گزار کیئے مگر بے سود ۔ دو سال سے پی ایس ایل جو پی سی بی کی کمائی کا سب سے بڑا زریعہ ہے اسوقت اسکی اوپنگ سرمنی ،آفشل سونگ سے لیکر کورونا ٹیسٹ تک لائو سٹریمنگ براڈکاسٹنگ دیگر کارنامے زبان زدعام ہیں۔ اور پی ایس ایل بھی اب تبائی کے دہانے تک پہنچادی گئی ہے۔
6 ،اب چند دن پہلے بورڈ آف گورنر کا اجلاس ہوا جس میں پی سی بی کی تمام لوٹ مار پر پردہ ڈالتے ہوئے مل کر کھانے کیلئے عوا کو لوٹنے کا
منصوبہ کلب رجسٹریشن کے نام پر بنایا گیا ہے۔یہ لوٹ مار کا اختیار چھ پروونشل ایسوسی ایشن کو دیا گیا ہے۔ بتائے گئے طریقہ کے کلب کا صدر پہلے پانچ ہزار5000 روپے جمع کرائے گا پھر اسے تفصیلی پرفارمہ دیا جائے گا جس میں وہ اپنے کھلاڑیوں کے نام لکھے گا اور ہر کھلاڑی کا دو سو 200 چار کے ساتھ لگائے گا۔ اگر کسی کلب کے پاس کم ازکم 25 کھلاڑی بھی ہوں تو پانچ ہزار یہ بھی ہوگیا یعنی ایک کلب سے دس 10000 کم ازکم وصول کریں گے۔ تو فضل محمود کھیلنے والے میرے خیال میں لگ بھگ تیس ہزار 30000 کلب تھے۔ 30000 ضرب 10000 برابر۔ تیس کروڑ روپے کم ازکم یہ کرکٹ سے محبت کرنے والوں لوٹے جائیں گے کیونکہ کوئی کرکٹ لوورز دس ہزار کی خاطر کرکٹ تو نہیں چھوڑے گا۔ اسکے بعد بقول ان کے ٹورنامنٹ کرایا جائے گا ہر سٹی میں تو یقینی طور پر ٹورنامنٹ فیس کے نام پر پھر لوٹ گھسوٹ کی جائے گی اور انکے چمچے جسٹیفائی کریں گے کہ چلو پہلے کرکٹ ہی نہیں تھی اب کرکٹ تو شروع ہوئی ہے کرکٹ ہونے دو اصول کو چھوڑو ۔ ہم جیسے اصول پرست اسوقت درست بات کرکے بھی مخالف ٹھہریں گے۔ اصل میں تو وہ بھی ایک لوٹ مار کا ڈھونگ ہوگا مگر کرکٹ کے پیاسے اسے امید کی کرن سمجھیں گے اور انکو آخری موقع بھی فراہم کردیں گے لوٹ مار کا۔کوئی بتا سکتا ہے پی سی بی نے آج تک کلب کو ایک روپیہ بھی دیا ہے ؟ کلب کی بہتری کیلئے کوئی ایک شق کسی بھی آئین میں شامل کی ہے ؟ سابقہ ادوار میں بھی کلبوں کو بغیر تنخواہ کے نوکر سمجھا جاتا تھا اور آج یہ پیراشوٹر ایسٹ انڈین کمپنی بن کر ہمہیں غلام سمجھتے ہیں مشقت بھی ہم سے لیتے ہیں اور پیسے بھی ہم سے لیتے ہیں۔
کسی بھی ریاستی ادارے کا عوام سے ایسا سلوک بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ایک کرکٹ ویلفیئر ادارہ ہے کوئی ایسٹ انڈین کمپنی نہیں اور نہ ہم اب برطانیہ کی نو ابادیاتی ہیں۔ تمام چیف جسٹس ہائی کورٹس اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیئے کہ ایک ریاستی ادارہ کیسے عوام کے ایک بڑے طبقے کے حقوق کتنی آسانی سے غصب کرتا ہے اور کوئی داد رسی والا نہیں۔