نیشنل گیمز کے ہیروز کے اعزاز میں ہونیوالی تقریب ،
ڈائریکٹریٹ کے بہترین اقدام کے غلط انداز میں کرانے کا حوال
مسرت اللہ جان
پشتو زبان میں ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ ” ڈک شہ ھم خوراک دے اور راشہ کینہ روٹی اوخرہ ” ھم ، جس کا مطلب کچھ یوں نکلتا ہے کہ "ابے آجاﺅ اور پیٹ بھرلو اور آئیے جناب کھانا کھالیں” یعنی دونوں کا مطلب ایک ہی ہے لیکن ان دونوںجملوں میں فرق الفاظ کے استعمال ، ادائیگی ہے کہ دوسرے کو کس نظر سے دیکھا اور بلایا جاتا ہے.
خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے گذشتہ روز نیشنل گیمز میں گولڈ ، براﺅنز اور سلو ر میڈل حاصل کرنے والے سال2023 کے کھلاڑیوں کیساتھ تقریبا پہلے جملے والاکام کردیا. یعنی ” ابے آجاﺅ ” انعامات تو انہیں دے دئیے گئے
لیکن جس طرح انعامی رقم دے- اس سے اندازہ ہوا کہ کھیلوں کی صوبائی وزارت نے کھلاڑیوں کو کتنی عزت دی یہ کسی بھی کھلاڑی ، کسی بھی کھیلوں کے ایسوسی ایشن اور کسی بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکار سے پوچھ کر تصدیق کی جاسکتی ہیں.
ان الفاظ کو آگے لے جانے سے قبل ایک بات جو قابل غورہونے کے ساتھ قابل ذکر بھی ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کھلاڑیوں کیساتھ وہی معاملہ کیا جو ہمارے معاشرے میں اکثر ہوتا ہے کہ اگر ‘ بیگم کے رشتہ دار ہو تو آگے آجاﺅ اور اگر شوہر کے رشتہ دار ہو تو گھر پر کوئی نہیں” والامعاملہ کردیا ،
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے چند دن قبل انڈر 23 کے مقابلے منعقد کروائے اور تین سال میں پہلی مرتبہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر پشاور نے خواتین کھلاڑیوں کے اعزاز میں ایک بڑے ہوٹل میں تقریب منعقد کی جس میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے تمام افراد نے خصوصی طور پر شرکت کی کیونکہ مشیر کھیل بھی
اس تقریب کا حصہ تھے اس لئے سب لوگوں نے خوب میک اپ اور اپنے اوپر سپرے کرکے تقریب میں شرکت کی تاکہ مشیر کھیل کے نظر وں میں توآسکیںحالانکہ یہ انڈر 23 کی صوبائی سطح کی تقریب تھی
اور وہ بھی صرف خواتین کھلاڑیوں کی جبکہ ڈسٹرکٹ پشاور کے لڑکوں نے بھی انڈر 23 کے مختلف کھیلوں میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا یہ الگ بات کہ بعض کھیلوں میں زبردستی دوسرے اضلاع کے کھلاڑی شامل کروائے گئے . خیر
بات گذشتہ سال ہونیوالے نیشنل گیمز کے فاتح کھلاڑیوں کے اعزازمیں ہونیوالی تقریب کی ہورہی ہے ، کم و بیش تریسٹھ لاکھ روپے اس تقریب میں تقسیم ہونے تھے جس کی اطلاع بہت کم لوگوں کو دی گئی تھی
نہ تومیڈیا سے وابستہ افراد کو آگاہ کیا نہ ہی کھلاڑیوں کو انفرادی طور پر یا ایسوسی ایشنز کو آگاہ کیا گیا جس کی وجہ سے چند ہی ایسوسی ایشنزکے لوگ ایرینا میں نظر آئے ، جہاں پر گرمی نے برا حال کیا تھا
اور ایرینامیں پڑا ہوا چلر بھی صرف "ہاتھی کے دانت کھانے کے اوراور دکھانے کے اور” کے مصداق کھڑا تو تھالیکن خراب تھا اس لئے آخری لمحات میں تقریب میں بھیجی جانیوالی خاتون ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رشیدہ غزنوی اور ڈائریکٹراسٹبلشمنٹ تقریب میں شریک تو ہوئے لیکن گرمی کی شدت کے باعث فائل سے اپنے اپ کو ہو ا دینے اورگرمی کو بھگانے کی کوششوں میں مصروف نظر آئے.
جمعہ کا دن ہونے کے باعث مشیر کھیل خیبر پختونخواہ تواپنے آبائی علاقے کی طرف نکل گئے تھے شائد یہ ان کی سیاسی مجبوری بھی ہے کہ اپنے علاقے کے عوام کو بھی وقت دے سکیں لیکن ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ ، ڈائریکٹر آپریشن اور اس شعبے سے وابستہ کسی بھی شخص نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی ،
وجہ کیا تھی اس بارے میں کسی کو معلومات نہیں تھی البتہ چہ میگوئیاںکی جارہی تھی کہ شائد ان صاحبان نے عیدالضحی کیلئے منڈیوں سے جانور لینے تھے اس لئے پہلے نکل گئے تاکہ قربانی کے جانوروںکی خریداری کرسکیں ،وجہ کوئی بھی ہو لیکن قومی سطح کے کھلاڑیوںکو لاکھوںروپے دینے کی
اس تقریب میں دوسرے کھیلوں سے وابستہ افراد سمیت خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن کے کسی بھی اہم شخصیت نے شرکت نہیں کی ، شائد وہ اس تقریب کو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی تقریب سمجھ رہے تھے
اورصوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اسے ایسوسی ایشن کی تقریب سمجھ کر شریک نہیں ہوئے حالانکہ یہ خیبر پختونخواہ کے کھیلوں سے وابستہ "ہیروز کی تقریب "تھی جنہوں نے کوئٹہ میں منعقدہ نیشنل گیمز میں ڈیپارٹمنٹ کے بعد اپنی بہترین پوزیشن اورکارکردگی دکھائی تھی
لیکن شائد کے پی او سمیت ایسوسی ایشن یا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اس کا ادراک نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس تقریب میں شرکت نہیں ، البتہ اگر اس میں صوبائی مشیر کھیل شریک ہوتے توشائد ڈائریکٹریٹ دیگر کھیلوں سے وابستہ افراد کو بھی گاڑیوں میں بھر کر لاتے تاکہ تقریب بھری بھری نظر آئے.
مالی سال کے آخری مہینے یعنی جون کے چودہ تاریخ کو دی جانیوالی گرانٹ اینڈ ایڈ کی رقم ایک ماہ قبل صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حوالے کی گئی تھی لیکن خدا جانے کیا مجبوری تھی ایک ماہ اس پرخاموشی چھائی رہی اور جب فنڈز کے واپس جانے کا خیال آ گیاتو اتنی جلدی میں تقریب منعقد کی گئی
کہ تقریب کے ہیروز سمیت کھیلوں سے وابستہ کسی بھی شخص کو آگاہ نہیں کیا گیا. بہت سارے کھلاڑی آئے بھی نہیں تھے سکواش کے کھلاڑیوں کی فہرست فائنل نہیں ہوئی تھی کچھ لوگ اسے خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن کی ناقص کارکردگی بتا رہے تھے
کہ انہوں نے سکواش کے کھلاڑیوں کی فہرست فراہم نہیں کی ، کچھ لوگ اسے سکواش فیڈریشن کی نااہلی قرار دے رہے تھے کہ انہوں نے نیشنل گیمز کے ہیروز کی فہرست اپ ڈیٹ نہیں کی تھی اس وجہ سے سکواش کے کھلاڑیوں کو رقم نہیں ملی ،
یہ کب ملے گی یہ بھی ایک راز ہے لیکن اتنی جلد بازی میںہونیوالی اس تقریب کے انعقاد سے پتہ چل گیا کہ ڈائریکٹریٹ بھی چل چلاﺅ والا کام کررہی ہیں اور ایسوسی ایشنز بھی
اس معاملے میں ڈائریکٹریٹ سے پیچھے نہیں.شائد فنڈز واپس جانے کا ڈر بھی تھا ایسوسی ایشن اس بات پر خوش کہ ڈوبی ہوئی انعامی رقم کھلاڑیوں کو مل گئی اور کھلاڑی اس بات پر خوش کہ عیدالضحی پر اچھی خاصی رقم مل گئی ، لیکن یہ انعامی رقم کس طرح ملی یہ سوال بھی خود ایک سوالیہ نشان ہے.
اس بات سے انکار نہیں کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے نیشنل گیمز کے ہیروز کو انعامی رقم دیکر بڑا کارنامہ سرانجام دیا ، ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اسے کارنامہ ہی کہا جاسکتا ہے
اور کھیلوں کی وزارت کیلئے بڑی خبر بھی ہے لیکن کاش صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت کھیلوں کے ایسوسی ایشنز کے کرتا دھرتاﺅں کو یہ احساس بھی ہوتا کہ کھلاڑی صرف انعام کی نہیں بلکہ عزت و احترام بھی چاہتے ہیں ،
سیاسی رہنماﺅں سمیت ڈیپارٹمنٹ کے اعلی افسران کے سامنے نمبر بنانے والے اگر یہ بات سمجھ لیں کہ اگر یہ کھلاڑی ہیں تو نہ صرف ڈیپارٹمنٹ ہیں او ر کھیلوںکی ایسوسی ایشنز ہیں
اور انکی سیاست بھی ، وگر نہ کھلاڑی نہیں ہونگے تو پھر ان کی گاڑیاں ، ان کی نوکریاں اور ان کی بدمعاشیاں بھی نہیں ہونگے انہیں صوبائی حکومت کی "کلچرل” ڈیپارٹمنٹ کو ذہن میں رکھنا چاہئیے
جو قبل ازیں ایک وزارت تھی اب صرف ایک ذیلی ادارہ بن کر "کل چرل ہوگئی ہیں.اوران کے افسران و اہلکار سرپلس ہوکر دوسرے ادارو ں میں دھکے کھارہے ہیں.