اسلام آباد(سپورٹس لنک رپورٹ)پاکستان کی ایشین گیمز میں مہم چار برانز میڈلز پر ختم ہوگئی۔ یہ تعداد ملک میں کھیلوں کے زوال پذیر معیار اور حکام کی عدم توجہ کا ثبوت ہے۔ناقص کارکردگی پر کھیلوں کے حلقے سراپا احتجاج اور ذمہ داران سے جواب طلبی چاہتے ہیں۔ اسپورٹس پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی کا بہترین وقت ہے۔ ملک میں ایتھلیٹس سہولتوں کے طلب گار ہیں۔ ملٹی اسپورٹس بین الاقوامی کھیلوں میں پاکستان کی شرکت اب محض رسمی کارروائی بنتی جارہی ہے۔ دوسری جانب روایتی حریف بھارت تیزی سے کھیلوں کے میدان میں طاقت بنتا جارہا ہے۔ بھارت نے میگا ایونٹ میں 15گولڈ، 24 سلور اور 30 برانز میڈلز جیت کر کھیلوں کو یادگار بنالیا۔ بھارتی کھلاڑیوں نے سونے کے تمغوں کا اپنا 1951 کا ریکارڈ برابر کیا جبکہ چاندی کے تمغوں کی یہ ریکارڈ تعداد ہے۔ اسے بھارت کے ایشین گیمز میں بہترین نتائج قرار دیا جارہا ہے۔ بھارت نے ایشین گیمز میں آٹھویں جبکہ پاکستان نے 34ویں پوزیشن حاصل کی۔ بھارت کے کئی نوجوان کھلاڑیوں نے علاقائی سطح سے نکل کر عالمی مقابلوں میں بھی دھاک بٹھانے پر نظریں جمادی ہیں۔ لیکن پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ نوجوان کھلاڑی کھیلوں کی جانب راغب نہیں ہورہے ہیں، لیکن اسپورٹس فیڈریشنز اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں برسوں سے وہی عہدیدار موجود ہیں، ہر بار الیکشن میں جیت کر کھیلوں کی حالت سدھارنے کے وعدے اور دعوے کرتے ہیں لیکن نتائج ہر بڑے ایونٹ کے بعد ماضی جیسے ہیں ہوتے ہیں۔ کھیلوں کے حلقوں نے ان نتائج پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔اسپورٹس کے محبت کرنے والوں اور مبصرین نے فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز سمیت پی اواے کے موجودہ عہدیداروں کی اہلیت پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ تقریباً14سال سے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سربراہ عارف حسن اور دیگر ذمہ داروں سے اس پرفارمنس پر جواب طلب کیا جائے۔ سنجیدہ حلقوں نے ملک میں کھیلوں کی متوازی تنظیموں کے قیام پر شدیدی تشویش کا اظہار اور ان کے سدباب کا مطالبہ کیا ہے۔ مبصرین نے پاکستان اسپورٹس کے کردار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ایشین گیمز میں پاکستان کو گولڈ میڈل کیلئے سب سے زیادہ امیدیں قومی کھیل ہاکی سے وابستہ تھیں، لیکن گرین شرٹس ابتدائی میچز میں کمزور حریفوں کو تو آسانی سے روندکر گولز کے ریکارڈز قائم کرتے رہے لیکن فائنل میں بھارت کیخلاف شکست نے اس کی مہم ناکامی سے دوچار کردی۔ گولڈ میڈل تو کیا ملتا، اسے کانسی کا تمغہ بھی نہ مل سکا۔ دلچسپ بات ہے کہ پاکستان ٹیم رواں برس چیمپئنز ٹرافی میں آخری نمبر پر آئی تھی۔ اس بدترین ناکامی کے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن نے تسلی دی کہ ہماری تمام تیاری ایشین گیمز کے لیے ہے جس میں ہم گولڈ میڈل جیت کر کے 2020 کے اولمپکس کے لیے براہ راست شرکت کو یقینی بنائیں گے۔ لیکن یہ موقع ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ یاد رہے کہ ہاکی فیڈریشن حکام عموماً حکومت سے فنڈز کے متقاضی رہتے ہیں۔ موجودہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو حکومت تین سال میں تقریباً 43 کروڑ روپے مل چکے ہیں اس کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے بھی فیڈریشن کو رقم فراہم کی ہے۔ لیکن پھر بھی قومی ٹیم مثبت نتائج حاصل نہیں کرپارہی۔ ایشین گیمز میں انتہائی مایوس کن کارکردگی کے بعد کھیلوں کے حلقوں اور مبصرین کا مطالبہ ہے کہ فیڈریشن، اولمپکس ایسوسی ایشن اور اسپورٹس بورڈ میں بھی تبدیلی لائی جائے۔