میرا آپ کو خط لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن آپ نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ ، پاکستان سپورٹس بورڈ ، کوچز ، ایسوسی ایشنز ، صحافیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اس لئے میرا بھی حق بنتا ہے کیونکہ سپورٹس کے شعبے کا اصل سٹیک ہولڈر میں ہی ہوں ، میری ہی وجہ سے یہ ڈیپارٹمنٹ چلتا ہے ، اس کے سینکڑوں ملازمین کو تنخواہیں ملتی ہیں ، میری ہی وجہ سے آپ جیسے صحافیوں کو دکانداری بھی چل رہی ہیں – برا مت مانئیے گا . میں نے آپ صحافیوں کیلئے دکانداری کا لفظ استعمال کیا یہ حقیقت ہے جو میں یہاں بیان کررہا ہوں.
آپ بھی یقینا سوچ رہے ہونگے کہ میں کون ہوں جو اتنا بولڈ لکھ رہا ہوں ، میں کھلاڑی ہوں ، میرا تعلق ہر ایک میدان سے ہے کھیل کے ہر ایک میدان میں میں کھیلتا ہوں .میری کوئی عمر نہیں ، نہ میری شناخت ہے ، نہ میری کوئی خواہش ہے ، ہاں اسے میری خود ستائی سمجھیں جو بھی سمجھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ میری واہ واہ کریں میں بھی دنیا پر راج کروں اور اس کے ساتھ ساتھ میں مملکت پاکستان کا جھنڈا بھی اوپر لیکر جائوں میری پہچان پاکستان ہے اور پاکستان دنیا میں سب سے آگے ہو. لیکن..
پاکستان کا جھنڈا اوپر نہیں جارہا ، کھیلوں کے میدان میں ،اس کی وجہ کیا ہے ، کیا اس کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ نے ، کھیلوں کے فیڈریشن نے ، ایسوسی ایشن نے ، اعلی حکام نے ، وزارت نے پوچھنے کی ہمت کی کسی کھلاڑی سے ، کہ جو اہم سٹیک ہولڈر ہے اس سے پوچھا جائے کہ اسے کن مسائل کا سامنا ہے اور کیسے آگے جائیں گے . کبھی نہیں.. ہمارے نام پر بننے والے اداروں میں ہم جیسے کھلاڑیوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں نہ ہی ایسوسی ایشن اور فیڈریشن ہمیں چھوڑتی ہیں کہ ہم آکر بات کریں. کبھی غلطی سے کسی اعلی افسر سے بات کریں تب بھی سرزنش ملتی ہیں..پابندیاں لگنے کی دھمکیاں ملتی ہیں..
اس دھمکی سے میں ڈرتا ہوں کیونکہ میں ایک کھلاڑی ہوں..کھیل کے میدان مجھ سے آباد ہیں اور میں ہی اپنے کھیل کی وجہ سے آباد ہوں. یہ سب سے بڑی حقیقت ہے اور میں اس حقیقت سے منہ موڑنا بھی نہیں چاہتا..
جناب صحافی صاحب!
کبھی آپ نے لکھا کہ کھیلوں کے نام پر بننے والی ایسوسی ایشنز کی گذشتہ تیس سالوں کی کارکردگی کیا ہے ، ان سے کونسے کھلاڑی آگے نکلے ہیں ، ہمیں کن مسائل کا سامنا ہے ، کبھی ریکٹ ، بال ، کٹس ، سوئمنگ کاسٹیوم کے بارے میں کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ کھلاڑی کہاں سے لیکر آئے . ایک ہی کھیل کا میدان تھا جس میں ہم جیسے غریب خاندانوں کے کھلاڑی آگے نکل کر اپنا نام بھی کما سکتے اور گھر والوں کیلئے روزی بھی لیکن..
یہاں تو کھلاڑیوں کو جوکٹس ، شوز ملتی ہیں وہ واپس لی جاتی ہیں کون لے جاتا ہے کسی سے پوچھنے کی ہمت کی ہے ، ایسوسی ایشن والے کہتے ہیں کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ والے واپس مانگتے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ یہ جھوٹ ہے لیکن ڈر کے مارے واپس کرتے ہیں- اور پھر ہماری ہی سپورٹس کی کٹس بڑے بڑے لوگوں کے آنیوالے بچوں میں تقسیم کی جاتی ہیں کبھی کبھار پیسے لیکر اور کبھی نمبر بنانے کیلئے..
صحافی صاحب!ق
آپ تو بڑے طرم خان بنتے ہوں آپ بھی اس بارے میں لکھ لو .
کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بڑے بڑے ناموں والے افراد کے بچوں کیلئے کورٹس کتنے وقت کھلتے ہیں اور انہیں کتنا وقت ملتا ہے جبکہ ہم جیسے غریب عوام سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو ٹریننگ تو دور کی بات ، ہم سے تو بات بھی صحیح طریقے سے نہیں کی جاتی ، ہم سے کوچز ایسے کام کرواتے ہیں جیسے ہم ان کے گھروں کے ملازم ہوں. ٹھیک ہے کہ کوچ بھی والد کی طرح ہوتے ہیں لیکن.. کیا والد بچوں میں تفریق کرتا ہے.. کبھی نہیں.. اگر تفریق کرتا بھی ہو تو اپنے بچوں کی صلاحیتوں کی بناء پر .. لیکن کھیلوں کے اس میدان میں تو صرف بڑے آدمی کے بچوں کیلئے کوچز اور ٹرینر سمیت ایسوسی ایشن کے اعلی عہدیداروں کا رویہ بھی ٹھیک ہوتا ہے ، انہیں وقت بھی زیادہ ملتا ہے اور انہیں تربیت بھی زیادہ ملتی ہیں. جبکہ ہم جیسے…
ٹھیک ہے کہ میر ا تعلق قبائلی علاقے سے ہے لیکن کیا میں کھلاڑی نہیں ہوں ، پشاور جیسے ترقی یافتہ شہر کے مقابلے میں ہماری صلاحیتیں کسی سے کم نہیں..
صحافی صاحب آپ کیلئے دکانداری کا لفظ میں نے استعمال کیا.. کیا آپ لوگوں نے قیوم سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں اپنی دکان نہیں کھولی..جس میں سارا دن تاش ، چغل خوری ، غیبت اورآنیوالے افراد پر فقرے بازی نہیں ہوتی..کیا یہ غلط ہے .. آپ کیسے صحافی ہوں. صبح سے شام تک یہاں پر آکر پڑے رہتے ہو. گرمیوں میں دو ائیر کنڈیشنر لگے ہوتے ہیں اورسردیوں میں ہیٹر ، چائے ، پانی کا خرچہ آپ کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ دیتا ہے ، بجلی کا بل آپ دیتے نہیں ، انٹرنیٹ کی سہولت آپ کو میسر ہے. ایسے میں آپ لوگوں کو اور کیا چاہئیے.. کیا یہ دکان نہیں…جس میں آپ صحافیوں کی دکانداری لگی ہوئی ہیں. کبھی غلطی سے آکر کھلاڑیوں سے پوچھ لیں.
کہ کھلاڑیوںکو ٹورنامنٹ کے دوران اور ٹرائلز کے دوران ملنے والی رقوم کون کھا گیا ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے تو دی تھی لیکن کون کھا گیا.. اس کا سوال تو آپ پوچھ سکتے ہو . ایسوسی ایشن سے بھی پوچھ لیں..کہ پانچ دن کے مقابلے کس طرح چار دن میں ختم کردیتے ہیں..
کبھی آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کس طرح قابل اور ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کا راستہ بند کیا جاتا ہے ، کئی کئی سالوں تک کھیلوں کے میدان کھلاڑیوں پر بند رہتے ہیں . اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو پشاور سے تعلق رکھنے والے بیڈمنٹن کے پاکستان کے چیمپئن مراد کے بارے میں پتہ کریں.. لیکن . معذرت کیساتھ.
.آپ سرکار کے ڈھولچیوں کی طرح ہوں.کسی زمانے میں حکومت کا بیان لوگوں کو سنانے کیلئے ڈھولچی ڈھول پیٹا کرتے تھے اور کہا کرتے کہ صاحب یہ کہہ رہے ہیں.. آپ وہی ڈھولچی ہوں. صرف نام تبدیل ہو کر رہ گیا ہے سرکار کے اعلانات ، احکامات تو دیتے ہو لیکن مسائل و مشکلات بیان کرتے ہوئے آپ کی قلم کو موت آتی ہیں..
برا مت ماننا.. میں آج کچھ ہی زیادہ تلخ ہو گیا ہو . لیکن اگر یہ غلط ہے تو آپ مجھے لکھ سکتے ہیں..
انشاء اللہ میرے دوسرے خط کا انتظار کرنا..
شکریہ
ایک گمنام کھلاڑی