اختر علی خان
پاکستان میں کھیلوں کا جو حال ہے اس کیلئے کوئی زیادہ لمبی کہانی سنانے کی ضرورت نہیں ہے، جاری ٹوکیو اولمپکس میں شریک اتھلیٹس کی کارکردگی دیکھ لیں آپ کو پاکستان میں کھیلوں کے معیار کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا، ہمارے ملک میں جب بھی کھیلوں کی بات کی جاتی ہے تو بات کرکٹ سے شروع ہو کر کرکٹ پر ہی ختم ہو جاتی ہے، ہمارے ہاں باقی چیزوں کی طرح کھیلوں میں بھی الٹی گنگا بہتی ہے، دنیا میں کھیل اسے تسلیم کیا جاتا ہے جو اولمپک کا حصہ ہو ، ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ کھیل صرف کرکٹ کو تسلیم کیا جاتا ہے جو اولمپک کا حصہ ہی نہیں ہے
پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے جو اولمپکس کھیل بھی ہے، ہمارے قومی کھیل ہاکی کی اس وقت جو حالت ہے اس کیلئے کوئی لمبی کہانی سنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، مختصر بتا دیتے ہیں کہ ہم اپنے قومی کھیل ہاکی میں بھی اولمپکس کیلئے کوالیفائی نہیں کرسکے،کسی ملک کی کھیلوں کیلئے اس سے زیادہ شرم کا مقام اور کیا ہوگا کہ وہ اپنے قومی کھیل میں بھی اولمپکس تک رسائی حاصل نہ کرسکے، ہمیں نہ دوسرے معاملات میں کوئی شرم محسوس ہوتی ہے اور کھیلوں کو تو ہم کسی کھاتے ہی میں نہیں رکھتے تو اس میں شرم کیوں کریں گے؟ہاکی کا حال یہ ہے کہ بہاولپور میں سابق اولمپئین فلائنگ ہارس کے نام سے مشہور کھلاڑی سمیع اللہ کا مجسمہ لگایا جاتا ہے اور اگلے دن خبر آتی ہے کہ کوئی شخص اس مجسمے سے گیند اور ہاکی چرا کر لے گیا ہے، یہ تو خبر قومی میڈیا میں چلی سوشل میڈیا پر اس مجسمے کے ساتھ کیا کیا غیر اخلاقی حرکات کی گئیں ان کو یہاں بیان تک نہیں کیا جاسکتا ، ہاکی اور گیند کو چوری کرنے والے چور کو پولیس پکڑ کر تھانے میں بند بھی کردیتی ہے مگر دو روز بعد پھر خبر آتی ہے کہ مجسمے میں لگائی گئی نئی ہاکی اور گیند دوبارہ کوئی لے اڑا ہے
اب بتائیں جس قومی کھیل کے ساتھ یہ مذاق ہو رہا ہے وہاں کھیلوں سے کتنا پیار کیا جاتا ہوگا؟اولمپکس، ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز اور سائوتھ ایشین گیمز میں کوئی بھی تمغہ جیتنے کی ہماری واحد امید ہاکی کا کھیل ہی ہے ہم اس بار ٹوکیو اولمپکس کیلئے بدقسمتی نہیں اپنی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے کوالیفائی ہی نہیں کرسکے لہٰذا میڈل جیتنے کی تمام امیدیں آغاز سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھیں، بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک سے جب صرف دس اتھلیٹس پر مشتمل دستہ ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کرے گا تو وہاں سے آپ کو کیا ملنا ہے؟ کوئی اپ سیٹ ہی آپ کے کسی کھلاڑی کو وکٹری سٹینڈ تک پہنچا سکتا ہے ، ہم نے ٹوکیو اولمپکس کے جن کھیلوں میں پنجہ آزمائی کیلئے کھلاڑی میدان میں اتارے ان کھیلوں میں بین الاقوامی سطح پر ہمارا کوئی مقام نہیں ہے، بیڈمنٹن میں ماحور شہزاد اپنے دونوں میچ بری طرح ہارنے کے بعد وطن واپس لوٹ چکی ہیں
ان کے بارے میں مشہور یہ کیا گیا کہ انہیں وائلڈ کارڈ انٹری ملی ہے حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے وائلڈ کارڈ انٹری بھی آپ کو بین الاقوامی مقابلوں میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر دی جاتی ہے اور ماحور شہزاد میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا، یہ انٹری انہیں عورتوں کے کوٹے کی وجہ سے دی گئی ہے ، شکست کے بعد ان کی جانب سے پٹھان کھلاڑیوں کے الزامات نے ثابت کیا کہ وہ کہیں سے بھی کھلاڑی نہیں ہیں اچھے گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے صرف شوقیہ بیڈمنٹن کھیلتے کھیلتے حادثاتی طور پر آگے چلی گئی ہیں، کھلاڑی کبھی بھی ہار کے بعد الزام تراشی یا بہانے نہیں بناتا گو کہ انہوں نے معافی مانگ لی ہے مگر ان کا وائرل ویڈیو کلپ دنیا بھر میں تماشا ضرور بن گیا ہے، ماحور شہزاد یہ شکایت بھی نہیں کرسکتیں کہ انہیں ٹوکیو اولمپکس کیلئے تیاری کا صحیح موقع نہیں ملا
ٹوکیو اولمپکس سے قبل ماحور شہزاد کو فیڈریشن نے 13 بین الاقوامی دورے کرائے یہ کسی بھی کھلاڑی کے کھیل میں نکھار لانے کیلئے اچھے خاصے دورے ہوتے ہیں، چھ ماہ تک وہ یورپی یونین میں کوچنگ پر رہیں ، اس سے زیادہ تیاری کیا ہوسکتی ہے ، اتنے دوروں اور اتنی کوچنگ کے بعد آپ دونوں میچ سٹریٹ سیٹس میں ہار کر اپنی غلطی ماننے کی بجائے پٹھانوں کو الزام دینگی تو آپ کا مذاق ہی اڑے گا۔ماحور شہزاد کے مقابلے میں ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ویٹ لفٹر طلحہ طالب بہت بہتر رہے جنہوں نے جم کر مقابلہ کیا کوالیفائنگ رائونڈ کے پہلے دو مقابلوں میں انہوں نے شامل دنیا کے مایہ ناز ویٹ لفٹرز کو پیچھے چھوڑا مگر فائنل مقابلے میں صرف دو کلوگرام کم وزن اٹھانے کی وجہ سے میڈل سے محروم ہو گئے، طلحہ طالب کے پاس نہ ہی کوئی پکی نوکری ہے، نہ ہی انہیں ٹریننگ کیلئے سہولیات دستیاب تھیں لیکن پھر اس ویٹ لفٹر نے میڈل تو نہ جیتا مگر پاکستانی عوام کے دل جیت لئے اس نے شکست کے بعد سہولیات نہ ہونے کا گلہ ضرور کیا مگر اپنی شکست کسی پٹھان، سندھی ، پنجابی یا بلوچی پر نہیں ڈالی، طلحہ طالب تو اولمپکس سے قبل نہ ہی یورپ کے دورے پر گیا نہ ہی اسے کسی یورپی ملک میں کوچنگ ملی وہ تو ایک سکول کی عمارت میں دیسی وزن اٹھا اٹھا کر پریکٹس کرتا رہا
ہمارے ملک میں کھیلوں کو چلانے والوں نے ٹوکیو اولمپکس جیسے ایونٹس کو اپنی جوائے رائیڈ کے طوپر لیا ہوا ہے، کھلاڑیوں سے زیادہ تو دستے میں آفیشلز شامل ہو جاتے ہیں سیر سپاٹے کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر سیلفیاں اپ لوڈ کرتے ہیں اور ہار کر بغیر شرمندگی کے وطن واپس آکر سہولیات نہ ہونے کا رونا روتے اور پھر اگلی جوائے رائیڈ کی تیاری شروع کردیتے ہیں، اصل احتساب تو اب کھیلوں کا ہونا چاہئے جہاں سالوں سے عہدیدار براجمان ہیں فنڈز کھاتے ہیں کھلاڑیوں کا استحصال کرتے ہیں اور خود مزے اڑاتے ہیں، میڈل جیتنے کیلئے جذبہ درکار ہوتا ہے محنت اور لگن چاہئے ہوتی ہے اور ان میں سے ہمارا پاس کچھ بھی نہیں ہے،جذبہ ،محنت اور لگن کی مثال دیکھنی ہو تو فلپائن کو دیکھ لیں جس نے اپنا پہلا دستہ اولمپکس میں 1924 میں بھیجا تھا اور میڈل کے حصول کیلئے محنت اور لگن جاری رکھی اور اب سو سال کے طویل وقفے کے بعد ان کی خاتون ویٹ لفٹر ہائیڈائلن ڈیاز نے فلپائن کے لیے پہلا گولڈ میڈل حاصل کرکے تاریخ رقم کردی۔
ڈیاز نے وویمن ویٹ لفٹنگ کے 55 ویں کیٹیگری میں گولڈ میڈل جیتا اوراس دوران انہوں نے 2 کامیاب لفٹوں میں 224 کلوگرام مجموعی وزن اٹھاکر اولمپک ریکارڈ بھی قائم کیا۔ہمارے ملک کی آبادی تقریباً 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور اتنی بڑی آبادی والے ملک سے ہم چند اتھلیٹس ایسے پیدا نہیں کرسکتے جو اولمپکس کی سطح پر ملک کیلئے میڈل جیت کر لا سکیں، ٹوکیو اولمپکس میں شریک دنیا کے سب سے چھوٹے ملک برمودا کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی 33 سالہ ‘فلورا ڈفی’ نے ٹوکیو اولمپکس میں خواتین کے ٹرائی تھلون کے مقابلے میں طلائی تمغہ جیت لیا۔ یہ اولمپکس کی تاریخ میں بھی برمودا کا پہلا گولڈ میڈل ہے اور یوں وہ اولمپک گولڈ جیتنے والا دنیا کا سب سے چھوٹا ملک بن گیا ہے۔برمودا کی آبادی تقریباً62000 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس سے قبل باکسر کلیرنس ہل نے 1976 میں مونٹریال اولمپک میں مردوں کے 81 کلوگرام ہیوی ویٹ مقابلے میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔پاکستان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ کھیلوں کے معاملات کو بھی ذرا سنجیدگی سے لے صرف اور صرف کرکٹ کھیل نہیں ہے، جو عزت اور مقام اولمپکس میں مقابلوں کے بعد گلے میں طلائی تمغہ پہننے سے ملتا ہے وہ کسی طرح بھی کم نہیں ہے ،ہمارے ملک میں اس وقت ہاکی، سکواش، فن پہلوانی، اتھلیٹکس، تیراکی اور کے دیگر کھیل توجہ کے طالب ہیں ان پر توجہ دیں کرکٹ پر آپ توجہ نہیں بھی دینگے تو وہ کبھی جیت اور کبھی ہار کے چکر میں پڑا رہے گا توجہ ان کھیلوں کو دیں جو اس وقت ہار کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔