سلمان علی آغا قومی ٹیسٹ کپتانی کے مضبوط امیدوار، پیشگوئی سامنے آگئی

سلمان علی آغا قومی ٹیسٹ کپتانی کے مضبوط امیدوار، پیشگوئی سامنے آگئی
بابر اعظم کو انسٹاگرام پر اَن فالو کرنے کے سوال پر کپتان سلمان علی آغا نے کیا جواب دیا؟
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے، جس کی بنیاد رکھی ہے قومی ٹیم کے سابق مڈل آرڈر بلے باز اور موجودہ تجزیہ کار باسط علی نے۔
حالیہ دنوں میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ نے کرکٹ حلقوں میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ باسط علی نے قومی آل راؤنڈر سلمان علی آغا کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن دیا:ریڈ بال کی بھی کپتانی مبارک، تینوں فارمیٹ کا ایک کپتان!۔
یہ مختصر لیکن پُرمعنی جملہ کئی پہلوؤں کو جنم دیتا ہے۔ کیا واقعی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) سلمان علی آغا کو مستقبل میں تینوں فارمیٹس کا کپتان بنانے پر غور کر رہا ہے؟ یا یہ محض ایک خواہش ہے جس کا اظہار باسط علی نے وقت سے پہلے کر دیا؟
یہ سوالات ان دنوں کرکٹ شائقین اور ماہرین کے درمیان موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق فی الوقت سلمان علی آغا کو ٹی20 ٹیم کا کپتان مقرر کیا جا چکا ہے، جہاں انہوں نے ہوم سیریز میں بنگلادیش کو 0-3 سے شکست دے کر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
اس کامیابی نے ان کے ناقدین کو خاموش کر دیا اور انہیں قومی کرکٹ میں ایک مضبوط لیڈر کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ ٹی20 میں ان کی قائدانہ حکمت عملی، بیٹنگ میں تسلسل اور فیلڈ میں خود اعتمادی نے انہیں ایک متوازن اور پُرعزم کھلاڑی کے طور پر پیش کیا ہے۔
اسی دوران پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے حالیہ ناقص نتائج نے ٹیم مینجمنٹ کو قیادت میں تبدیلی پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ نومبر 2023 میں شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا تھا، مگر ان کی قیادت میں کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔
پاکستان نے شان مسعود کی کپتانی میں 12 ٹیسٹ میچز میں سے صرف 3 میں فتح حاصل کی جب کہ 9 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جن میں آسٹریلیا، بنگلادیش اور جنوبی افریقا کے خلاف وائٹ واش بھی شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پی سی بی اب قیادت میں تبدیلی کا سوچ رہا ہے اور ٹیسٹ ٹیم کے لیے 2 مضبوط امیدواروں پر غور کیا جا رہا ہے، جن میں سعود شکیل اور سلمان علی آغا شامل ہیں۔
دونوں کھلاڑی مڈل آرڈر میں ٹیم کا اہم حصہ ہیں اور حالیہ عرصے میں ان کی کارکردگی بھی مستحکم رہی ہے،تاہم سلمان آغا کو اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ وہ ٹی20 کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ ٹیم میں نائب کپتان کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
باسط علی کا دعویٰ اس وقت سامنے آیا ہے جب پی سی بی کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا،لیکن ان کی ٹوئٹ نے اس بحث کو مزید گرم کر دیا ہے کہ آیا پاکستان کرکٹ بورڈ واقعی تینوں فارمیٹس کا ایک ہی کپتان بنانے کی طرف جا رہا ہے؟
ماضی میں اس ماڈل کو کئی ٹیموں نے آزمایا ہے، جن میں انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں،مگر پاکستان کا کرکٹ کلچر اس لحاظ سے مختلف رہا ہے کہ یہاں فارمیٹ کے لحاظ سے الگ الگ کپتان مقرر کیے جاتے ہیں تاکہ بوجھ تقسیم کیا جا سکے۔
اس وقت پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں پوائنٹس ٹیبل پر نویں نمبر پر موجود ہے۔ ایسے میں قیادت میں تبدیلی محض ایک آپشن نہیں بلکہ مجبوری بنتی جا رہی ہے۔ ٹیم کی پے در پے شکستوں نے شائقین کرکٹ کو مایوس کیا ہے اور پی سی بی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
اگر سلمان علی آغا کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سونپی جاتی ہے تو وہ ان چند کھلاڑیوں میں شامل ہو جائیں گے جنہیں تینوں فارمیٹس میں کپتانی کا موقع ملا۔ یہ ایک اہم ذمہ داری ہوگی،
جہاں انہیں نہ صرف کھلاڑیوں کی کارکردگی کو نکھارنا ہوگا بلکہ ٹیم میں نیا جوش و جذبہ بھی پیدا کرنا ہوگا۔ ان کی مزاجی سنجیدگی، مستقل مزاجی اور میدان میں حاضر دماغی انہیں ایک مؤثر لیڈر بنانے کے لیے کافی سمجھی جا رہی ہے۔



