خیبرپختونخوا میں کبڈی کے فروغ کیلئے حکومتی سرپرستی اور وسائل کی کمی سے درپیش چیلنجز کاسامناہے، سید۔سلطان بری
پشاور: رپورٹ: غنی الرحمن
خیبرپختونخوا کبڈی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور انٹرنیشنل ریفری سید سلطان بری نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں کبڈی کو گراس روٹس سطح پر فروغ دینے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں،
لیکن حکومتی سرپرستی اور وسائل کی کمی اس کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ نوجوان نسل کبڈی کے روایتی کھیل سے لگاؤ رکھتی ہے، تاہم حکومت کی جانب سے کھیلوں کی مناسب حمایت نہ ہونے کے باعث کھلاڑیوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پختونخوا ریڈیو ایف ایم 92.2 کے پروگرام "اسپورٹس راوٴنڈ اپ” میں کیا، جس کے اینکر نوجوان صحافی وصال یوسفزئی تھے۔
سید سلطان بری نے کہا کہ کبڈی پاکستان اور بھارت میں ایک مقبول کھیل ہے، لیکن پاکستان میں اسے اتنی پذیرائی نہیں ملتی جتنی کہ بھارت میں ہے، جہاں کروڑوں روپے کے انعامات پر مشتمل کبڈی لیگ منعقد کی جاتی ہے،
جس میں ہر کھلاڑی کو لاکھوں روپے انعام میں دیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں کبڈی کے کھلاڑی محدود وسائل کے ساتھ اس کھیل کو فروغ دے رہے ہیں اور اپنی روزمرہ کی ذمہ داریوں کے بعد کبڈی کے لیے وقت نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ دیگر کھیلوں کی طرح کبڈی کے کھلاڑیوں کو بھی حکومتی سرپرستی دی جائے اور تعلیمی اداروں میں کبڈی کھلاڑیوں کو بطور اسپورٹس ٹیچر تعینات کیا جائے، جبکہ محکمہ کھیل میں کبڈی کوچز بھرتی کیے جائیں تاکہ نوجوانوں کو گراس روٹس سطح پر تربیت فراہم کی جا سکے اور کھلاڑیوں کو باعزت روزگار مل سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ کبڈی ایسوسی ایشن کے پاس فنڈز کی شدید کمی ہے، جس کے باعث کھلاڑیوں کو ماہانہ وظیفہ اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ محدود وسائل کے باوجود ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع جیسے پشاور، چارسدہ، مردان، ہری پور، بنوں، اور صوابی میں کبڈی کے مقابلے منعقد کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کبڈی کو عالمی سطح پر بھی خاصی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور مختلف اندازوں میں کھیلی جاتی ہے، جیسے ایشین اسٹائل، پرو کبڈی، انڈور کبڈی اور بیچ کبڈی۔ انہوں نے ایرانی ٹیم کی مثال دی، جو کبڈی میں ترقی کر کے عالمی سطح پر نمایاں پوزیشن حاصل کر چکی ہے، حالانکہ ایران نے کبڈی پاکستان سے سیکھی تھی۔
سید سلطان بری نے بھارت کی کبڈی لیگ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں دو سو کروڑ روپے کی انعامی رقم رکھی گئی ہے اور ہر کھلاڑی کو 8 سے 9 کروڑ روپے تک مل رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں اس کھیل کے کھلاڑیوں کو اتنی پذیرائی نہیں ملتی۔ اگر پاکستان میں بھی کبڈی کے کھلاڑیوں کو انعامی رقم اور مواقع فراہم کیے جائیں تو قومی ٹیم دوبارہ عالمی سطح پر نمایاں کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔
انہوں نے ریفری کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کسی بھی کھیل میں ریفری کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے اور غیر جانبدارانہ فیصلے ہی ریفری کی عزت کو بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں کھیلے جانے والے کبڈی ورلڈ کپ میں بطور سنٹرل ریفری اپنی خدمات انجام دی تھیں اور قومی و بین الاقوامی سطح پر عزت اور مقام حاصل کیا۔
سلطان بری نے یہ بھی بتایا کہ خیبرپختونخوا میں خواتین کبڈی کے فروغ کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں انٹرکالج اور اسکول سطح پر مقابلے منعقد کیے جا رہے ہیں تاکہ خواتین کھلاڑی بھی اس کھیل میں اپنی صلاحیتیں منوا سکیں، اور مستقبل میں پشاور ڈویژن میں خواتین کبڈی ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔
سید سلطان بری نے صوبائی حکومت اور محکمہ کھیل و تعلیم سے درخواست کی کہ کبڈی کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر تعاون بڑھایا جائے، کھلاڑیوں کو مالی امداد فراہم کی جائے، اور کبڈی کو دیگر کھیلوں کی طرح پذیرائی دی جائے تاکہ یہ کھیل خیبرپختونخوا میں اپنی حقیقی منزل پا سکے۔