مضامین

ارشد ندیم: عروج، زوال اور پاکستان ایتھلیٹکس و پی ایس بی کا المیہ

تحریر: شاہد الحق

ارشد ندیم: عروج، زوال اور پاکستان ایتھلیٹکس و PSB کا المیہ

تحریر: شاہد الحق

پاکستان کے اسپورٹس کے نقشِ قدم پر ایک ایسا لمحہ آیا جب ایک کھلاڑی نے پوری قوم کا سر فخر سے اونچا کر دیا — ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو میں 92.97 میٹر کی تاریخی تھرو کے ساتھ طلائی تمغہ جیتا۔

جبکہ ورلڈ اتھلیٹکس چمپیئن شپ میں ارشد ندیم ایک منجھے ھوۓ کھلاڑی کی کارکردگی نہ دیکھا سکے جسکی وجہ سے پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کے سابق صدر و چیئر مین جنرل محمد اکرم ساہی جو موجودگی ساؤتھ ایشیئن اتھلیٹکس کے صدر بھی ھیں نے ایک مختصر انٹرویو میں جو شکوے شکایتیں کیں اور تحقیقات کا مطالبہ کیا اس سے کئی شکوک و شبہات نے جنم لیا۔

یہ وہ سنگِ میل تھا جس کے بعد اداروں، پالیسی سازوں اور کوچنگ مشینری سے سنجیدہ سوال پوچھنے ضروری ہو گئے اور عوام کی معلومات کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ھوا کہ اس کارکردگی کے پیچھے کونسے کردار و ادرے کار گر تھے۔

اس مضمون میں میں وہ تمام سوالات، شکوک و شبہات، اور سفارشات یکجا کر رہا ہوں جو اس پورے معاملے کے گرد اٹھتے ہیں — کوچنگ سے لے کر طبی علاج تک،

فیڈریشنز اور پاکستان اسپورٹس بورڈ (PSB) کے کردار سے لے کر ارشد کی ذاتی ذمہ داری اور مستقبل کے لیے ناگزیر اصلاحات تک۔ میری کوشش ہوگی کہ کوئی اہم نکتہ رہ نہ جائے — حقائق جہاں تصدیق ہو سکے ان کے ساتھ، اور جہاں ثبوت کم ہوں وہاں واضح طور پر بتایا جائے کہ یہ تحقیقی سوالات ہیں جن کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔

1) اولمپک کامیابی کے بعد واضح منصوبہ بندی کا فقدان

ارشد ندیم کی اوّلمپک فتح کے فوری بعد ایک موقع تھا کہ فیڈریشن اور حکومت جیووِلِن تھرو کی لمبی مدت کی ترقی کا جامع نقشہ بناتیں — ہائی پرفارمنس سینٹر، ریجنل کوچنگ نیٹ ورک، گراس روٹ ٹیلنٹ ہنٹ اور مسلسل میڈیکل/سپورٹس سائنس سپورٹ۔ مگر حقیقت یہ رہی کہ وہ بقاعدہ، مربوط اور تسلسل پر مبنی منصوبہ بندی منظرِ عام پر نہ آئی۔ کئی رپورٹس میں یہ بھی آیا کہ ادارے اس کامیابی کا کریڈٹ لینے میں مصروف رہے، جب کہ عملی طور پر موثر سرمایہ کاری اور ڈویلپمنٹ کا تسلسل غائب رہا۔

2) ایک آدمی — کئی اہم عہدے: شفافیت اور مفاد کا تضاد و سوالات

ساؤتھ ایشیا/عالمی و اولمپک کامیابیوں کی سطح پر اور مقامی سطح پر ارشد ندیم کے ساتھ جو بنیادی شراکت رہی، وہ اتھلیٹکس فیڈریشن کے سابق پریذیڈنٹ جو ساؤتھ ایشیئن اتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر بھی ھیں اور کوچ فیاض بخآری کی رہی جبکہ سلمان اقبال بٹ (Salman Iqbal Butt) کو ٹوکیو اولمپک کے بعد ارشد ندیم کے ساتھ ایک رابطہ افسر کی ذمہ داریاں سونپی گیئں۔ انہیں ارشد کا کوچ بتایا جاتا ہے اور ان کے پاس ساؤتھ ایشیا سطح پر ڈویلپمنٹ عہدہ بھی دیا گیا۔ متعدد ذرائع میں سلمان بٹ پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کے بھی ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر کے طور پر حوالہ ملتے ہیں۔ اس کے باوجود عوامی حلقوں میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ کیا ایک ہی فرد کو مقامی/صوبائی/علاقائی و بین الاقوامی ذمہ داریوں کا ذمہ دینا شفاف اور منصفانہ ہے؟ جب ایک شخص بیک وقت فیڈریشن، صوبائی باڈی یا علاقائی ڈویلپمنٹ رولز میں اثر رکھے تو تضادِ مفاد (conflict of interest) اور اثر و رسوخ کے امکانات پر سوال اٹھتے ہیں — اور ان سوالات کی شفاف انکوائری لازمی ہے۔

تحقیقی نقطہ: اس بات کی آزادانہ جانچ ہونی چاہیے کہ کسی فرد کو ایک سے زائد کلیدی عہدوں پر تقرر کس طریقہ کار کے تحت ہوئے؟ کیا اس کی تعلیمی و پروفیشنل قابلیت مستند طریقے سے جانچی گئی؟ تقرریاں کن سفارشات یا فیصلوں کی بنیاد پر ہوئیں؟ یہ معلومات عوامی ہونی چاہئیں تاکہ شکوک دور ہوں۔

3) طبی علاج: لندن میں آپریشن، قطر کا عالمی معیار کا کھیلوں کا ھسپتال اور فیصلہ سازی پر سوال

حالیہ رپورٹس کے مطابق ارشد ندیم نے پنڈلی (calf) کے آپریشن کے لیے برطانیہ کے اسپائر/کیمرج سینٹر میں سرجری کروائی جو ڈاکٹر علی باجوہ کی زیرِ نگرانی ہوئی — یہ فیصلہ کس کے مشورے اور منظوری سے ہوا؟

اس کی تفصیلات شفاف ہونی چاہئیں۔ کیا علی شیر باجوہ پہلے کسی بڑے اتھلیٹ یا سپورٹس میڈیسن کے ساتھ تجربہ رکھتے تھے؟ اور کیا ڈاکٹر باجوہ ہی بہترین انتخاب تھے؟

اس تناظر میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیوں لندن کو منتخب کیا گیا جبکہ خطّے میں قطر کا معروف اسپورٹس میڈیکل مرکز Aspetar عالمی شہرت رکھتا ہے، جو سنجیدہ کھیلوں کی میڈیکل اور ریہیبلیٹیشن سہولیات مہیا کرتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ادارہ ہے۔ اگر علاج کا انتخاب ذاتی تعلقات یا اثر و رسوخ کی بنا پر ہوا تو یہ کھلاڑی کے بہترین مفاد کے منافی ہوگا؛ اسی لیے اس پورے فیصلے کی دستاویزی منطق سامنے لانی چاہیے تاکہ شفافیت کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔

تحقیقی نقطہ: فیڈریشن/PSB کو یہ بتانا چاہیے کہ طبی فیس بک-کونسلنگ، آپریشن اور ریہیب کے فیصلے کس نے اور کس میڈیکل مشورے کی بنیاد پر کئے گئے؟ اگر بین الاقوامی آپشنز کا تقابلی جائزہ اور مکمل تفصیلات موجود ہیں تو وہ شائع کیا جائے۔

4) پاکستان اسپورٹس بورڈ، فنڈز اور ‘براہِ راست’ روابط — اختیارات و شفافیت

پاکستان اسپورٹس بورڈ سرکاری سطح پر فنڈ تقسیم کرنے والا ادارہ ہے اور اس نے ارشد ندیم کو اور ایتھلیٹکس فیڈریشن کو مختلف ریوارڈز/گرانٹس دیے۔ PSB کی جانب سے کچھ کیش پرائزز اور سہولیات دینے کی خبریں موجود ہیں —

مثال کے طور پر PSB کی طرف سے ارشد کو اعزازی انعام کا اعلان اور فیڈریشن کو تربیتی فنڈ دینے کی رپورٹ سامنے آئی۔ اس کے باوجود یہ سوال برقرار ہے کہ جیسا کہ ارشد رسمی طور پر ایتھلیٹکس فیڈریشن (AFP) سے منسلک ہے، PSB نے براہِ راست یا فیڈریشن کے ذریعے فنڈنگ کیوں اور کس اختیار کے تحت کی؟ یہ ایک گورننس کا مسئلہ ہے جسے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

مختلف ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آئی ھے کہ ارشد کے علاج کی غرض سے کچھ حکومتی و پرائیویٹ اداروں نے سپانسر شپ دی جو کروڑوں روپے بنتی ھے جبکہ پاکستان سپورٹس بورڈ نے بھی لندن علاج کے لئے کروڑوں فنڈز جاری کئے وہ کتنے تھے؟ اور کیا ارشد یا PSB ان اخراجات کی تفصیلات دے گا؟

تحقیقی نقطہ: PSB اور AFP کے فنڈنگ میکانزم کو شفاف بنائیں — کون سے طریقہ کار کے تحت کون سا فنڈ جاری ہوتا ہے، کوچز اور فیڈریشنز کے لیے انعام یا معاونت کا طریقِ کار کیا ہے، اور فیصلے کن اصولوں کے تحت لیے گئے۔

جبکہ فیڈریشن بار بار سلیمان بٹ کو کوچ تسلیم کرنے سے انکاری ھے تو صرف ارشد کے کہنے پر سلیمان کو کوچ کیوں تسلیم کیا گیا؟ یہاں تحقیقات کی ضرورت ھے کہ کہیں ارشد اور سلیمان میں کیش ایورڈ کے لالچ میں بندر بانٹ تو نہیں؟

5) کوچ فَياض الحسن بُخاری کا نظرانداز ہونا — اخلاقی اور عملی نقصان

ارشد کے ابتدائی تربیت کار اور لفظی طور پر “اصل معمار” کہلانے والے فیاض الحسن بُخاری نے ارشد کی بنیاد رکھی اور ان کے کردار کو تاریخی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر میڈیا اور ادارتی تشہیر میں بسا اوقات اصل کوچ کے کردار کو کم کر کے ان کے نمائندے یا بعد کے مینجرز کو کوچ دکھایا جاتا رہا —

یہ فطری طور پر ناانصافی ہے اور کوچنگ ماڈل کے لیے بھی نقصان دہ۔ ابتدائی کوچ کو نظر انداز کرنا اسپورٹس کلچر میں ایک خطرناک پیغام بنتا ہے: محنت، استقامت اور لوکل کوچنگ کو کم اہم سمجھا جائے۔ متعدد رپورٹس نے فیاض بخاری کی خدمات کے صلے میں کم معاوضہ اور ایک اولمپیئن کوچ ھونے کے ناطے کم درجے پر تسلیم کرنا اور سرکاری و نجی سطح پر پذیرائی نہ ملنا فیڈریشن، حکومتی اداروں اور ارشد ندیم کا براہ راست ملوث ھونے کا ذکر بار بار ذرائع ابلاغ میں آیا ھے۔ اسکی تحقیق بھی ھونی چاہیئے۔

سفارش: کوچ بخاری کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں، انہیں ماہرین کے ساتھ شراکت میں تربیتی پراجیکٹس کا سربراہ بنائیں، اور ان کے نام پر مقامی/قومی جونیئر سکالرشپ/ٹریننگ پروگرام شروع کریں تاکہ ان کی میرٹ کو جوہری قدر دی جائے۔

6) سلیمان/سلمان بٹ — اسناد، تقرریاں اور شکوکِ پیدا ہونے کی وجہ

عوام اور صحافتی حلقوں میں یہ بڑھتا ہوا سوال بار بار سامنے آیا کہ کیا سلمان بٹ کی تمام تقرریاں اور انتظامی عہدے معیاری و شفاف طریقے سے دیے گئے؟ ہم نے جو آرکائیو/اخباری حوالہ جات دیکھے ان میں سلمان اقبال بٹ کے کوچنگ اور ایشیا/ورلڈ ایتھلیکس ڈویلپمنٹ رولز کے حوالے ملے، مگر کچھ دعوے —

مثلاً ایک شخص کا ایک وقت میں صوبائی صدر، فیڈریشن ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر، ارشد کا کوآرڈینیٹر، ساؤتھ ایشیا کے پیڈ/پروگرام ڈائریکٹر اور خود ساختہ اولمپک کوچ بن جانا — کی واضح سرکاری دستاویزی تائید ہر جگہ دستیاب نہیں ملی۔ کچھ عناصر تصدیق شدہ ہیں (Coaching & development roles)، کچھ دعوے عینی شواہد طلب کرتے ہیں۔کیا بین القوامی طور پر ہزاروں ڈالرز ملنے کے باوجود اس شخص کا کوئی پاکستان یا ساؤتھ ایشیاء کے لئے باقاعدہ ڈویلپمنٹ پلان سامنے آیا؟ اور اس تقرری کا کوئی اجتماعی فائیدہ ھوا؟ اور اگر ھے تو منظر عام پر لایا جائے ۔

تحقیقی نقطہ:

1. تقرریوں اور ایکریڈیشن کی آزادانہ جانچ کرائی جائے — (a) سرکاری آڈٹ، (b) ورلڈ ایتھلیٹکس/ایشیئن ایتھلیکس کی طرف سے جاری سرٹیفیکیٹس کی بئومکینکس کی ڈگری اور تجربہ، ویریفیکیشن

2. اگر کسی بھی سطح پر مفاد میں تضاد پایا جائے تو اس کی شفاف انکوائری کی جائے اور نتیجوں کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔

7) انعامات، مالی مراعات اور کوچ بخاری کے حق میں تضاد والا منظرنامہ

ماضی میں کوچ فیاض بخاری کو مقامی سطح پر انعامات ملے، مگر بعد ازاں جب بڑے پیمانے پر پیسے اور اعزازات دیے گئے تو مختلف ادارے (PSB، صوبائی حکومتیں، وزارتیں) نے مختلف مقدار میں انعامات تقسیم کیے —

ان تقسیمات کے طریقِ کار اور معیار کے بارے میں عوامی سوالات اٹھے۔ اسی دوران بعض رپورٹس میں یہ بھی آیا کہ بعض اہلِ منصب یا نئے متعارف شدہ افراد جیسے سلیمان بٹ کو ترجیحی مراعات دی گئیں، جس نے شکوک کو ہوا دی۔

سفارش: نقد انعامات کی تقسیم کے معیار کو باقاعدہ قانون/پالیسی کے تحت لایا جائے — کوچز، فیڈریشن اور PSB کے بیچ ترسیل کا شفاف عمل طے ہو اور کارکردگی کے پیمانے واضح ہوں۔

8) ارشد ندیم — ذاتی طرز عمل، احتیاطیں، غرور اور ذمہ داری

تنقید کا ایک پہلو ارشد ندیم کے اپنے طرزِ عمل سے بھی منسلک ہے۔ جتنی بھی ذمہ داری اداروں پر عائد ہوتی ہے، ایک عالمی سطح کا ایتھلیٹ اپنی ذاتی پروفیشنلز، فٹنس اور کارکردگی کو برقرار رکھنے کے لئے، فیڈریشن، کوچ اور علاج کے انتخاب میں زیادہ باخبر اور عاجزی والا رویّہ رکھے تو بہتر ہے۔ یہ بات بھی درست ھے کہ ارشد کی خوشیوں، تقریبات، اور میڈیا جذبات نے شاید انہیں تربیت کے تسلسل سے دور کیا — اور یہ ورزش/پریکٹس میں خلل کا سبب بن گیا جو بہرحال ارشد کی انجری کا سبب بنا۔ اگر ارشد ندیم اپنے کوچ فیاض بخاری صاحب جیسی محنت کرنے والے کوچ کا احترام اور انکساری دکھاتے تو یہ سسٹم میں ایک صحت مند علامت بن سکتا تھا۔ ایک سوال اور جنم لیتا ھے کہ ارشد نے اپنی فیڈریشن اور ساتھی اتھلیٹس کے لیے کیا کیا؟ کیا انہوں نے جیولن کی ترقی کے لیے کوئی مالی یا تربیتی اقدام پیش کیا؟ عوامی سطح پر معاشرے کے لئے کوئی فلاحی کام میں واضح شرکت کی؟ اگر ارشد نے امداد یا کوئی پروگرام پیش کیا تو اسے شفاف طریقے سے ریکارڈ کریں اور اپنی اس کارکردگی کو مشعل راہ بنائیں۔

9) بھائی کا WAPDA میں تقرر — حقیقت اور شفافیت

کچھ رپورٹس میں درج ہے کہ ارشد کے خاندان/بھائیوں کے لیے WAPDA نے مراعات یا نوکریاں فراہم کیں؛ وَاَپڈا کی جانب سے ارشد کے خاندان کے لیے سہولیات کی خبریں منظرِ عام پر آئیں — یہ ایک عام عمل ہے جہاں ادارے ہستیوں کو ملازمتیں دیتے ہیں، مگر شفاف طریقہ کار کو سامنے رکھنا چاہیے تاکہ “ اقربا پروری” کے تاثر کو روکا جا سکے۔

10) بھارت کی حکمتِ عملی: ایک مقابلہ نقطۂ نظر

نیراج چوپڑا اور بھارت کی مثال واضح کرتی ہے کہ جب کامیابی کو مربوط نظام سازی اور سرمایہ کاری سے جوڑا جائے تو نتائج دیرپا ہوتے ہیں — بھارت نے نیراج چوپڑا کی کامیابی کے بعد ایونٹس، ہائی پرفارمنس سینٹرز، اور خاص بین القوامی سیمنارز، ٹریننگز کا اہتمام کیا، اور ایک باقاعدہ ایونٹ (Neeraj Chopra Classic) شروع کیا اور دیگر ڈویلپمنٹ اقدامات نے جویلن گراؤنڈ کو مضبوط کیا۔ اس ماڈل نے نئے ٹیلنٹس کو جنم دیا (مثلاً حالیہ عالمی مقابلوں میں سامنے آنے والے نئے بھارتی تھروورز)۔ پاکستان کے لیے بھی یہی سبق ہے: ایک شخص کی کامیابی کافی نہیں بلکہ ادارہ جاتی تسلسل درکار ہے۔

11) اگر فیڈریشن/PSB/حکومت سنجیدہ ہے تو فوری عملی سفارشات (عملی اقدامات جو فوری نفاذ کے قابل)

1. فوری شفاف انکوائری (30–60 دن):

سلمان اقبال بٹ/متعلقہ افراد کی تقرریوں، ایکریڈیشنز اور اسناد کی آزادانہ تصدیق۔

ارشد ندیم کی طبی تاریخ، علاج کے فیصلوں اور فنڈنگ کی دستاویزات کی باقاعدہ جانچ۔

2. PSB کی ازسرِنو تشکیل (گورننس ریفارم):

فیصلہ سازی میں صرف ماہرین (sports scientists, experienced coaches, former elite athletes) کو شامل کریں؛ منسٹر/سیکریٹری/ڈی جی کا رول گورننس و پالیسی تک محدود رکھیں۔

بورڈ ممبرز کے لیے میرٹ، خدمات کی مدت اور پارلیمانی،عسکری یا سیاسی مداخلت و اثرات سے آزادی کے باقاعدہ قواعد بنیں۔

3. گراس روٹ اور ہائی پرفارمنس سینٹر کا ڈھانچہ:

جیولن کے لیے نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر قائم کریں (Aspetar جیسے ماڈل سے مشابہت) کھلاڑیوں کے لئے ھسپتال کا قیام؛ علاقائی کوچنگ سینٹرز قائم کریں؛ ایک 8–10 سالہ ٹیلنٹ ہنٹ پلان وضع کریں۔

4. طبی اور ریہیب پروٹوکول:

کسی بھی سنجیدہ انجری کی صورت میں کم از کم دو آزاد اسپورٹس میڈیکل ریویو لازمی کریں؛ علاج کی جگہ، ماہر اور اخراجات کا تقابلی جائزہ ضابطے کے طور پر رکھیں اور نجی شعبے سے فنڈنگ کاعمل شفاف بنایا جائے ۔

کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے فیڈریشن اور حکومتی ادارے مل کر اخراجات مینج کریں اور زیادہ اخراجات کی صورت میں نجی شعبہ سے بھی مشترکہ کوششیں کرنی چاہیئں۔

5. کھلاڑی، کوچز اور مینجرز کے معاوضے و مراعات کا مربوط نظام واضح کیا جائے جو سب کے لئے قابل قبول اور حوصلہ افزا ھو۔

کوچز کے معاوضے، انعامات اور مراعات کا واضح شیڈول شائع کریں؛ اصل کوچز (جیسے فیاض بخاری) کے کریڈیٹس اور مراعات یقینی بنائیں۔

6. بین الاقوامی معاونت اور ریلوکیشن:

ارشد اور یاسر جیسے ٹیلنٹس کو فیاض بخاری کے زیرِ نگرانی کسی عالمی ماہر کوچ کے ساتھ ٹریننگ کی سہولت فراہم کریں — اگر ضروری ہو تو انہیں ایک پروفیشنل ترتیب دیئے ھوئے پروگرام کی بنیاد پر بیرونِ ملک بھیجا جائے تاکہ انجری فری اور ورلڈ لیول کارکردگی حاصل ہو۔ (کوچ فیاض بخاری کا سابقہ بیان کہ ارشد ورلڈ ریکارڈ بھی توڑ سکتا ہے قابلِ توجہ ہے — اس توقع کو عملی شکل دینے کے لیے ماہرین کا ساتھ ضروری ہے۔)

12) شفافیت اور عوامی اعتماد — درخواست براۓ فیڈریشن و PSB

میں بطور صحافی اور کھیلوں کا ماہر درخواست کرتا ہوں:

ارشد ندیم کے معاملے میں فیڈریشن اور PSB عوامی طور پر ایک مفصل بریف جاری کریں جس میں تقرریاں، فنڈز، علاج کے فیصلوں اور مستقبل کے ڈویلپمنٹ پلان واضح ہوں۔

اس معاملے میں اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو تسلیم کریں؛ اصلاحی اقدامات اور ذمہ دار افراد کی شناخت سے ہی عوامی بھروسہ بحال ہوگا۔

13) ذاتی رائے اور اخلاقی نکتہ

ارشد ندیم نے قوم کو وہ خوشیاں دی ہیں جو کم ہی ملی ہیں — ان کی جیت قومی اثاثہ ہے۔ مگر ہیرو کو بھی خود احتسابی کرنی چاہیے: کوچز کا احترام، عاجزی، اور قومی ترقی کے لیے زیادہ مظبوط شراکت — یہ وہ اقدار ہیں جو انہیں اور ملک کو دونوں فائدہ دیں گی۔ اگر ارشد اپنے ابتدائی کوچ فیاض بخاری کے ساتھ دوبارہ مربوط ہو کر اور ماہرین کے زیرِ نگرانی بھرپور تربیت کریں تو ان میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ نہ صرف ورلڈ ریکارڈ بلکہ پھر سے دیرپا، مستقل کارکردگی دکھائیں — بشرطیکہ ادارے بھی اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیں۔ (کوچ فیاض بُخاری نے پہلے کہا تھا کہ ارشد ورلڈ ریکارڈ تک پہنچ سکتا ہے — یہ اعتماد ابھی بھی ضائع نہیں ہوا۔) جبکہ یہاں یاسر سلطان جو بخآری صاحب ہی کی کوچنگ میں پاکستان نمبر 2 اور انتہائی پر امید کھلاڑی ھیں پر بھی برابری کی بنیاد پر محنت ضروری ھے ۔

14) خلاصہ — کیا ہونا چاہیے؟ (بڑی تصویر)

اصلاحات: PSB اور فیڈریشن دونوں میں گورننس ریفارم لازمی۔

شفاف انکوائری: تقرریاں، فنڈنگ اور طبی فیصلوں کی آزادانہ جانچ۔

کوچنگ رولز: اصل کوچز کو تسلیم اور منظم طریقے سے انعام دیں؛ جیولن کو تربیتی پلانز کا حصہ بنائیں۔

ہنگامی تربیتی منصوبہ: ارشد اور یاسر کو فوری طور پر ماہرین کی نگرانی میں ریہیب/ٹریننگ پہنچائیں — بیرونِ ممالک کے ہائی پرفارمنس سینٹرز کے ساتھ پارٹنرشپ پر کام کریں۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!