اس سال پاکستانی ہاکی ٹیم کو کامن ویلتھ گیمز، ایشیئن گیمز اور ورلڈ کپ جیسے تین بڑے ٹورنامنٹس میں شرکت کرنا ہے تاہم پاکستانی ٹیم کی کارکردگی، موجودہ عالمی رینکنگ میں 13ویں پوزیشن اور سب سے بڑھ کر ٹیم منیجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی میں بار بار تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی پاکستانی ٹیم سے کسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں رکھ رہا۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے گذشتہ دنوں سابق اولمپیئن حسن سردار کو پاکستانی ہاکی ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا ہے جبکہ سابق کپتان اصلاح الدین سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے ہیں۔
یہ دونوں پاکستانی ہاکی میں اہم مقام رکھتے ہیں لیکن دونوں کی ان نئی تقرریوں پر انہی کے ساتھ کھیلنے والے سابق اولمپئنز نے سخت تنقید کی ہے۔
اپنے دور میں ’فلائنگ ہارس‘ کے نام سے مشہور سمیع اللہ نےبرطانوی ویب سائٹ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن اس وقت مختلف تجربات کر رہی ہے اور ہمارے کچھ سابق کھلاڑی غیر ملکی دوروں کے مزے لینے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔
سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ فیڈریشن اپنی ناکامی کا ملبہ بڑے ناموں والے سابق اولمپیئنز کے سر ڈالنا چاہتی ہے اور اس کے لیے ہمارے سابق اولمپئنز بھی تیار ہیں۔
سمیع اللہ کہتے ہیں کہ کسی بہتر شخص کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر اور سیکریٹری بنایا جانا چاہیے۔
سنہ 1984 میں لاس اینجلز اولمپکس جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان منظور جونیئر کے خیال میں حسن سردار اور اصلاح الدین کی تقرری فیڈریشن کا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔
منظور جونیئر کا برطانوی ویب سائٹ کو دیے گئے انٹرویو میں کہنا ہے کہ حسن سردار کچھ دنوں پہلے تک چیف سلیکٹر تھے لیکن ان کی منتخب کردہ ٹیم نے آسٹریلیا میں منعقدہ چار ملکی ٹورنامنٹ میں آخری پوزیشن حاصل کی جبکہ یہ وہی حسن سردار ہیں جن کی منتخب کردہ ٹیم نے 2010 کے عالمی کپ میں بارہویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حسن سردار نے زندگی میں کبھی بھی کسی سکول ٹیم تک کی کوچنگ نہیں کی اور انہیں پاکستانی ٹیم کا ہیڈ کوچ بنادیا گیا ہے۔
منظور جونیئر کا کہنا ہے کہ فیڈریشن نے حسن سردار کو اپنے سیٹ اپ میں اس لیے شامل کر رکھا ہے کہ کہیں وہ میڈیا میں بیٹھ کر فیڈریشن پر تنقید نہ کریں۔
منظور جونیئر کا اصلاح الدین کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ اپنا بہترین وقت گزار چکے ہیں۔ وہ جب فیڈریشن میں نہیں ہوتے تو اس پر تنقید کرتے رہتے ہیں اور جب فیڈریشن میں آتے ہیں تو ان کے نزدیک سب اچھا ہو جاتا ہے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری شہباز احمد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حسن سردار کا کوچنگ کا زیادہ تجربہ نہیں ہے لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حسن سردار کو ایڈمنسٹریشن کا تجربہ ہے لہذا انہیں منیجر اور ہیڈ کوچ بنایا گیا ہے اور ان کے ساتھ دو کوچز ثقلین اور ریحان بٹ رکھے گئے ہیں۔
سابق کپتان اصلاح الدین اپنے بارے میں کیے جانے والے اس اعتراض کو سختی سے مسترد کرتے ہیں کہ وہ عہدے کے شوقین رہے ہیں۔
اصلاح الدین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں حسن سردار یا ایاز محمود کو فیڈریشن کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا ان سے پوچھیں کہ پھر کن لوگوں کو فیڈریشن میں آنا چاہیے۔ پاکستانی ہاکی مشکل دور سے گزر رہی ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ قومی ہاکی کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں۔
اصلاح الدین کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی بھی مفاد فیڈریشن سے وابستہ نہیں ہے کیونکہ ان کی فیملی میں کوئی بھی فرد ہاکی نہیں کھیل رہا اور نہ ہی ان کا کوئی ہاکی کلب ہے۔