پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان تین ٹونٹی میچوں کی سیریز کا آغاز ہو چکا ہے اور پہلے میچ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو جس طرح کی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کو دیکھ کر سیریز کے باقی میچوں کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جاسکتی،جن شائقین کرکٹ نے میچ دیکھا انہوں نے بخوبی اس بات کا اندازہ کیا ہوگا کہ ٹیم کی بیٹنگ لائن ابھی تک نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکی ہے اور یہ ایک بہت بڑی ناکامی ہے، پانچ ون ڈے میچوں کی سیریز کھیل کر بھی ابھی تک کسی بھی بیٹسمین کو کیوی بائولرز کی اندر سے باہر اور باہر سے اندر آتی گیندوں کی کوئی سمجھ نہیں آرہی اور نتیجہ ہار ہی کی صورت میں سامنے آرہا ہے،شکست کیوں ہوئی؟اس سوال کے کئی جواب آسکتے ہیں، اس پر ایک طویل بحث ہوسکتی ہے تاہم دیکھتے ہیں کہ پہلے ٹی ٹونٹی میچ میں پاکستان کرکٹ ٹیم سے کہاں کہاں غلطی ہوئی۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ بیٹنگ لائن کی ناقص کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیم کے 9کھلاڑی اپنا سکور ڈبل فیگرز میں لیجانے میں ناکام رہے ،بیٹسمینوں کی ناقص کارکردگی پر ٹیم کے کوچ مکی آرتھر نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں اور انہوں نے میچ کے اختتام پر پریس کانفرنس میں کہا کہ کھلاڑیوں کی کارکردگی سے بہت زیادہ مایوس ہوں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر اتنی سخت محنت کے باوجود ہم مستقل ہار کیوں رہے ہیں۔
قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ مکی آرتھر کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ میچ سے قبل جب ٹیم کمبی نیشن ترتیب دیا جا رہا تھا تو کیسے پاکستان نے بیٹنگ آرڈر میں ایک اور محیر العقول تجربہ کر ڈالا۔ پہلے چاروں بلے باز لیفٹ ہینڈڈ بھیجے گئے۔ کرکٹ میں عموماً اس طرح کے تجربات مخالف اٹیک کی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان نے صرف فخر زمان کے رنز اور حارث سہیل کی دو اننگز سے یہ اخذ کر لیا کہ ان وکٹوں پہ بائیں ہاتھ سے بلا چلانا مفید رہتا ہے۔ الٹے سیدھے تجربات کرکے میچ ہار جانا اور پھر اس ہار کا ملبہ کبھی بیٹنگ، کبھی بائولنگ اور کبھی موسم کو قرار دے دینا کہاں کا انصاف ہے۔اس وقت یہ حال ہے کہ جس پر بھی نظر پڑی اسے اٹھا کر ٹیم کا اوپنر بنا دیا اب وہ کچھ کرے یا نہ کرے اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔انٹرنیشنل کرکٹ میں بہت تبدیلیاں آچکی ہیں اور پاکستان جب تک ان تبدیلیوں کے ساتھ نہیں چلے گا کبھی کبھار تو جیت جائے گا مگر جیت میں تسلسل نہیں آئے گا، ذرا ماضی میں دیکھیں تو چیمپئنز ٹرافی کی تمام فتوحات اور بعد ازاں سری لنکا کے خلاف کلین سویپ بھی خالصتاً بولنگ یونٹ کا کمال تھے۔ اس بیٹنگ پہ تو پہلی بار ذمہ داری کا کچھ بوجھ پڑا ہے۔ اور یہ نیوزی لینڈ کے ہرے بھرے میدانوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی پھر رہی ہے۔ اور اسی کی دیکھا دیکھی بولنگ بھی خود سے شاکی نظر آ رہی ہے۔ناکامیوں میں پھنسی پاکستان کرکٹ ٹیم کو باہر آنے کیلئے اپنی تمام خامیوں کو دیکھنا ہوگا، ان پر کام کرنا ہوگا اور انہیں دور کرتے ہوئے آئندہ میچوں کیلئے میدان میں اترنا ہوگا، اگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تو پھر جیت کیلئے دعوے بھی نہ کرے اور شکست کے بعد بہانے بھی مت تراشے، سب سے بڑی بات آج میچ کے دوران جو دیکھنی میں آئی وہ یہ تھی کہ جو بھی بیٹسمین آیا اس کی باڈی لینگویج سے قطعاً یہ احساس نہیں ہو رہا تھا کہ اسے گزشتہ میچوں میں ٹیم کی شکست پر کوئی شرمندگی ہے اور وہ ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے، جو بھی آیا اس نے اپنے انداز سے کرکٹ کھیلی، وکٹ مخالف ٹیم کو تھما اور واپسی کی راہ لی، ہمیں تو ٹی وی سکرین پر میچ دیکھنے کو ملا اور اس پر بھی یہ محسوس کرنے میں دیر نہیں لگی کہ کوئی گڑبڑ ہے مگر کیا گڑبڑ ہے یہ تو ٹیم مینجمنٹ ہی بہتر بتا سکی ہے۔