تحریر آغا محمد اجمل
برداشت مولائی صفت ہے اور صرف ان خوش نصیب لوگوں کو ملتی ہے جو اللہ کے پسندیدہ ہوتے ہیں اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ برداشت بهی وہی کرتا ہے جس کے دل میں رب بستا ہے. ایسی ہی ایک شخصیت کا نام میاں عباس ہے. پچهلے دو سال سے قومی سطح پر فٹبال کی بہتری کےلیے ان کی کاوشوں کا تجزیہ کیا جائے تو پیٹرن ان چیف انٹرنیشنل ویٹرن الیون اور جلو ایف سی کے روح رواں ہونےکی حثیت سے ان کی خدمات قابل دید ہیں.
لیکن جب ایک ستارہ آسمان پر اپنی پرخلوص دلگداز روشنی سے ستائیش کے موتی سمیٹ کر سورج بن جاتا ہے تو کچه "میں” کے ماروں کی آنکهیں حسد کی وجہ سے چندهیا جاتی ہیں. حسد جب "میں” کو زیادہ ستانے لگتا ہے تو یہ اوچهے ہتکهنڈے استعمال کرکے اپنی خود ساختہ انا کو تسکین پہنچانے کی لا حاصل بهاگ دوڈ کرکے جلو فٹبال گراونڈ کی رونقوں کو ماند کرنے کی کوشش کر کے خود کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتے ہیں.
لیکن میاں عباس نے صبر اور برداشت سے جلو فٹبال گراونڈ کی رونقوں کو جس طرح بحال کیا ہے یہ صرف ان ہی کا حاصہ ہے. انتہائی عجزو انکسار کے پیکر میاں عباس سے جب میں نے رونقوں کو بحال کرنے پر لکهاں مبارکاں کا پیغام دیتے ہوئے استسفار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ صرف ممکن ہوا ہے صبر اور برداشت کے ساته ساته پرخلوص مشوروں اور دوستوں کی دلی دعاوں سے.
میں جب سے ویٹرن الیون کے ساته منسلک ہوا ہوں میں نے میاں عباس اور جلو ایف سی کی انتظامیہ کا انتہائی باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے. سر فہرست جلو ایف سی کے انتظامی امور پر مامور افراد میں لالو پوچی کا عنصر نہ ہونے کےبرابر ہے. ہر شحص میاں عباس کی طرف سے دیئے گئے پلان کو پروفیشنل طریقے سے سر انجام دیتا ہے.
دوم انتہائی گهمبیر صورتحال کے باوجود کسی کے منہ سے گالی نہیں سنی حالانکہ اصل محرک کا سوفیصد پتا تها. میں نے سلیم بٹ سے اس کی وجہ پوچهی تو انہوں نے کہا "مہذب آدمی کبهی کسی کو گهٹیا، لعنتی یا جانور نہیں کہتا کیونکہ گالی انسانیت کے درجے سے گرنے کا نام ہے. گالی کو برداشت کرنا صبر کہلاتا ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساته ہوتا ہے.”
جب میں نے منظور جهورا سے جلو فٹبال کی بحالی اتنی جلدی ممکن ہونے کے محرک کا پوچها تو انہوں نے کہا ” کہ یہ خلوص نیت کا حاصل ہے.”