کراچی (جی سی این رپورٹ)سندھ کی سابق حکومت نے اولمپئن اصلاح الدین کو ہاکی کے فروغ کیلئے دس کروڑ سے زائد لاگت کی ہاکی اکیڈمی بناکر دی اور اسے چلانے کیلئے 2014 میں دو کروڑ روپے کی گرانٹ بھی جاری کی لیکن سندھ کی نگران حکومت کی وزارت کھیل نے ہاکی اکیڈمی پر کروڑوں روپے لگانے کی انکوائری شروع کرتے ہوئے اولمپئن اصلاح الدین سے دو کروڑ روپے کا حساب بھی مانگ لیا۔ہاکی اکیڈمی پر نئی بلو ٹرف اور پھر ہوٹل نما ہاسٹل کا حساب تو سابقہ حکومت ہی دے گی لیکن اکیڈمی چلانے کیلئے دیے جانے والے دو کروڑ روپے اور اطراف میں بنائی جانے والی دکانوں کا حساب اصلاح الدین کو ہی دینا ہوگا۔اولمپئن اصلاح الدین پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان رہے ان کی کپتانی میں پاکستان نے ملک کیلئے کئی اعزازات بھی جیتے اس کے علاوہ منیجر کوچ بھی رہے اس دور میں بھی ٹیم نے کامیابیاں سمیٹیں۔دوسری جانب پی ایچ ایف کے چیف سلیکٹر سابق کپتان اصلاح الدین نے کہا ہے کہ 2014 ءمیں اکیڈمی کو سندھ حکومت سے جو دو کروڑ روپے کی گرانٹ ملی تھی اس میں سے ابھی تک ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا ہے بلکہ وہ گرانٹ دو کروڑ سے بڑھ کر اب ڈھائی کروڑ روپے ہوگئی ہے۔سندھ کی نگراں صوبائی حکومت سے دو کروڑ گرانٹ کی جواب طلبی کا انہیں ابھی تک کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان باتوں میں کوئی صداقت نہیں کہ دو کروڑ روپے غلط طریقے سے خرچ کردیئے گئے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اصلاح الدین نے کہا کہ اکیڈمی کے اخراجات اکیڈمی میں قائم دکانوں کے کرایہ سے پورے کئے جاتے ہیں، بجلی کا بل اور ملازموں کی تنخواہیں بھی ادا کی جاتیں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہماری اکیڈمی میں کھیل کے ساتھ باقاعدہ طور پر ہاکی پڑھائی بھی جاتی ہے، روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں بچے کوالیفائیڈ کوچز سے تربیت لیتے ہیں۔اصلاح الدین نے کہا کہ دو کروڑ روپے خرچ کرسکتا تھا لیکن یہ اکیڈمی کے بچوں کی امانت ہے، یہ بات بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جس دن سے یہ اکیڈمی بنی ہے میں نے اس اکیڈمی سے ایک روپیہ بھی نہیں کمایا۔ان کا کہنا تھا کہ اکیڈمی کا باقاعدہ طور پر ہرسال آڈٹ ہوتا ہے ہر چیز پر چیک اینڈ بیلنس قائم ہے ۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سرکاری خزانے کے پیسوں کو بینک کے فکس ڈیپوزیٹ میں رکھا جاسکتا ہے۔اصلاح الدین کی پریس کانفرنس کے بعد نگراں حکومت سندھ انہیں ایک اور نوٹس جاری کرنے والی ہے۔