تحریر : فاروق سلہریا
پاکستان اور ہندوستان کے مابین کرکٹ مقابلہ (بالخصوص ورلڈ کپ کے دوران) واہگہ کے دونوں جانب جنگی ہیجان کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ بیس سال پہلے اردو ہندی کے اخبارات چیختی چلاتی سرخیاں جماتے۔ پھر نجی چینلوں نے آ کر اِس کام کو بامِ ِعروج پر پہنچا دیا کہ ٹی وی میڈیم ہی ایسا ہے کہ اپنی ٹیکنالوجی کے باعث اس میں بے شمار امکانات موجود ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے نفرتوں کے کھیل کو مزید ہوا دی۔
حالیہ پاک بھارت ورلڈ کپ مقابلے کو ہی لیجئے۔ گو فردوس عاشق اعوان نے میچ سے قبل ایک جنگی پیغام جاری کیا مگر زیادہ توجہ ایک اشتہار کو ملی جس پر بھارتی میڈیا نے بھی خوب اعتراض کیا۔ مذکورہ اشتہار ایک موبائل سروس مہیا کرنے والی کمپنی یعنی جازنے جاری کیا جس میں ونگ کمانڈر ابھی نندن کی اُس ویڈیو کی پیروڈی بنائی گئی جو انکی گرفتاری کے بعد جاری کی گئی (اور انڈیا پاکستان میں شاید سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیو بن گئی)۔ یہ اشتہار اِس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو کابین السطّور بیانیہ یہ تھا کہ جنگ ہو یا کھیل پاکستان انڈیا کو دُھول چٹاتا رہے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کبھی بھی عالمی کپ کے مقابلوں میں بھارت سے نہیں جیتا۔ بھارتی میڈیا اس بات کو اب ہر ورلڈ کپ سے پہلے خوب اچھالتا ہے۔
خیر پاکستان نے ہارنے کی روایت برقرار رکھی۔ مگر انڈیا، جہاں اب حکومت ہی اُس جماعت کی ہے جو پاکستان اوربھارتی مسلمانوں سے نفرت پھیلا کر ووٹ لیتی ہے، کی طرف سے پاکستانی اشتہار کا جواب ”موقع موقع سیریز“کا اگلا اشتہار بنا کر دیا گیا۔ جو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
میچ کے دو دن بعد نفرتوں کے ورلڈ کپ نے سرکاری شکل اختیار کر لی۔ بھارتی وزیر داخلہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق سربراہ امت شاہ نے ٹویٹ کیا: ”پاکستان پر ٹیم انڈیا کا ایک اور حملہ: نتیجہ اس بار بھی وہی نکلا۔“
جواب میں آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور باجوہ نے ٹویٹ کرکے امت شاہ کو یاد دلایا کہ کھیل کا جنگ سے موازنہ درست نہیں اور یاد رہے کہ جنگ کا نتیجہ مختلف تھا کیونکہ پاکستان نے نہ صرف بھارتی فضائیہ کے دو طیارے مار گرائے بلکہ بھارت کو مانسہرہ میں بھی کچھ حاصل نہ ہوا۔
امت شاہ کے جواب میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) نے بھی مشورہ دیا کہ وہ کھیل اور جنگ کو علیحدہ رکھیں اور بہار کے شہر مظفر نگر میں دماغی بخار سے ہونے والی بچوں کی ہلاکتوں پر توجہ دیں۔ اس ٹویٹ کو اِس پار یا اُس پار کسی سرمایہ دار میڈیا ہاؤس نے قابلِ توجہ نہیں سمجھا۔
مظفر پور میں دماغی بخار سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد سو سے تجاوز کر گئی ہے۔
سچ پوچھئے تو کھیل کے مقابلوں کو نفرت کے ورلڈ کپ میں بدل دینا صرف برصغیر تک ہی محدود نہیں۔ جرمنی اور برطانیہ کے مابین فٹ بال میچ میں بھی دوسری عالمی جنگ کے ترانے گائے جانے لگتے ہیں۔ ایک بار 1970 ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کرنے کے لئے ایل سلواڈور اور ہنڈوراس کے مابین 1969ء میں ہونے والا میچ جنگ کا باعث بن گیا۔ ہنڈوراس نے میچ ایک گول کی برتری سے جیت لیا جس کے بعد ایل سلواڈور نے ہنڈوراس پر فضائی حملہ کر دیا اور یوں شروع ہونے والی جنگ سو گھنٹے جاری رہی۔
بلا شبہ دونوں ملکوں کے بیچ کشیدگی ایک عرصے سے موجود تھی۔ میچ محض ایک بہانہ بنا تھا۔ یہی حال انڈیا پاکستان کا ہے۔سرکاری کشیدگی کی وجوہات اور ہیں مگر کھیل بھی جنگی جنون اور نفرت پھیلانے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ اول یہ کہ حکمران طبقات مذہب کی طرح ثقافت کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور تو اور مسلمان بنیاد پرست حکمرانوں اور سنگھ پریوار نے تو سائنس کو بھی نہیں بخشا۔ ضیاالحق کے دور میں جنوں کی مدد سے لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کے لئے باقاعدہ کانفرنسیں ہو رہی تھیں اور اب ہندوستان میں نریندرا مودی ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہند قدیم میں ہندو پروہتوں نے جدید سرجری کو بھی مات دے رکھی تھی ورنہ گنیش دیوتا (جن کا جسم انسانی اور سر ہاتھی کا ہے) کیسے وجود میں آتے۔ کھیل تو پھر کھیل ہے۔
گویا کھیل کو سیاست سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جدید کھیلوں کی تاریخ سے واقف کوئی شخص بھی بتا سکتا ہے کہ ہٹلر سے لیکر امت شاہ تک، سبھی نے کھیلوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ ہمارے ہاں تو مقتدر قوتوں نے سابق کرکٹر کو ملک کا وزیر اعظم بنوا دیا ہے۔
دوسری وجہ: سرمایہ داری کے تحت کھیل میں مقابلہ بازی کا عنصر آ جاتا ہے۔ سرمایہ داری اور مقابلہ بازی لازم و ملزوم ہیں۔
یاد رہے کہ انقلاب ِ روس کے بعد ایسے کھیلوں کو رواج دینے کی کوشش کی گئی جس میں مقابلے کی بجائے ہم آہنگی یا تعاون کا عنصر شامل ہو (اس کی ایک مثال پی ٹی ہے)۔ اسی طرح 1920 ء کی دہائی میں یورپ کی مزدور تحریک نے متبادل اولمپکس کا انعقاد شروع کر دیا۔ یہ اولمپکس اس قدر کامیاب ہوئے کہ اتھلیٹس اور تماشائیوں کی تعداد کے حوالے سے سرمایہ دارانہ اولمپکس کو بھی تقریباً مات دینے لگے تھے۔ تاہم مزدور تحریک میں سوشل ڈیموکریٹوں اور کمیونسٹوں کے مابین گروہ بندی اور دوسری عالمی جنگ نے مزدور اولمپکس کو نقصان پہنچایا۔ بعد ازاں دوسری عالمی جنگ کے بعد سویت یونین کی بیوروکریٹک اشرافیہ نے کھیلوں کی پالیسی بالکل بدل دی۔ سرد جنگ کے پس منظر میں فیصلہ کیا گیا کہ کھیل کے میدان میں امریکہ کو شکست دی جائے۔یوں مزدور اولمپکس دم توڑ گئے۔
گویا مقابلے پر مبنی کھیلوں کی موجودہ شکل کوئی الہامی فیصلہ نہیں۔ معاشی نظام جس طرح ثقافت کے دیگر پہلوؤں کو متاثر کرتا ہے اسی طرح کھیل بھی تشکیل پاتے ہیں۔ سرمایہ داری کھیل میں مقابلے کا عنصر لے آتی ہے۔ مقابلے کے ساتھ جب کھیل میں منافع شامل ہو جاتا ہے تو بڑے بڑے کرپشن سکینڈل سامنے آنے لگتے ہیں۔ اسی طرح مقابلے کو جب قوم پرستی کا تڑکا لگایا جاتا ہے تو امت شاہ اور میجر جنرل غفور کی ٹویٹ بازی اور موقع موقع والے اشتہار بنتے ہیں۔
ایک سوشلسٹ سماج میں نہ صرف یہ کہ نئی طرح کے کھیل رواج پا سکتے ہیں جن میں مقابلے کی بجائے تعاون کو کھیل کی روح بنایا جا سکتا ہے بلکہ ایسے مقبول عام کھیل (جیسے فٹ بال یا کرکٹ) جو اب انسانی تہذیب کا حصہ بن چکے ہیں‘ ان میں مقابلے کو نفرتیں پھیلانے کی بجائے مشترکہ تفریح کا سامان بھی بنایا جا سکتا ہے۔
1920ء کی دہائی میں ہونے والے مزدور اولمپکس جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے میں ایسے کھیل بھی تھے جن میں مقابلہ حاوی ہوتا اور ایسے کھیل بھی تھے جن کا فلسفہ تعاون تھا۔ دونوں صورتوں میں مقصد یہ تھا کہ کھیلوں کے نتیجے میں عالمی یکجہتی کو جنم دیا جائے۔
ترقی پسند بھارتی اداکار اُوم پوری یاد آ رہے ہیں۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل وہ پاکستان آئے تو دنیا ٹی وی کے معروف پروگرام”مذاق رات“ میں ان کا انٹرویو ہوا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ پاک بھارت میچ دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ان کے پاس ہندوستان کا جھنڈا بھی ہو اور پاکستان کا بھی۔ جب کوئی پاکستانی کھلاڑی چوکا لگائے تو وہ پاکستان کا جھنڈا لہرائیں اور جب کوئی بھارتی کھلاڑی چوکا لگائے تو وہ بھارتی پرچم لہرائیں۔
کھیلوں کے بارے میں آنجہانی اوم پوری کا وژن تب ہی حقیقت بن سکتا ہے جب نفرت کے سیاسی سوداگروں کو شکست دیدی جائے گی۔