تحریر۔عجازوسیم باکھری
پاکستان کرکٹ ٹیم کا ورلڈ کپ میں سفر اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ قومی ٹیم نے میگاایونٹ میں آٹھ میچز کھیلے جس میں پانچ جیتے ، تین میں شکست ہوئی اور ایک میچ بارش کی نذر ہوا۔ رن ریٹ کم ہونے کی وجہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہ کرسکی تاہم سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہ کرنے کی وجہ صرف رن ریٹ نہیں ہے، اس میں ناقص حکمت عملی، ٹاپ آرڈرز کی ناکامی، کمزور قیادت اور حریف ٹیموں کے خلاف پلاننگ کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان ٹیم انتظامیہ یا کپتان میگاایونٹ میں پانچ میچز جیتنے اور صرف تین میں شکست پر جو بھی ڈھول بجاتے رہیں لیکن اینڈ آف دی ڈے قومی ٹیم سیمی فائنل کی چار ٹیموں میں جگہ نہیں بناسکی۔ یہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کمزوری بھی ہے اور ناکامی بھی۔ ورلڈ کپ 2011 میں پاکستان نے سیمی فائنل کھیلا جبکہ ورلڈ کپ 2015 میں پاکستان کوارٹرفائنل میں ہار گیا تھا۔ رواں ورلڈ کپ میں سلیکشن کے مسائل بھی رہے جبکہ حکمت عملی پر سب سے زیادہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ کپتان سرفراز احمد بیٹنگ اور کپتانی میں متاثر نہیں کرسکے، نیوزی لینڈ اور افغانستان کیخلاف پاکستان کامیاب تو رہا لیکن رن ریٹ بہتر بنانے کی جانب کسی کی توجہ نہیں تھی۔ افغانستان جیسی کمزور ٹیم کیخلاف مشکل سے کامیابی حاصل کرنا ہی پاکستان ٹیم کیلئے سیمی فائنل کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنا۔
انفرادی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے اوپنر بلے باز امام الحق نے بنگلہ دیش کیخلاف آخری میچ میں سنچری تو سکور کی لیکن امام الحق پورے ٹورنامنٹ میں آف کلر رہے، فخرزمان کیخلاف یہ ورلڈ کپ بڑی ناکامی لیکر آیا، فخر نے پورے ٹورنامنٹ میں صرف ایک نصف سنچری سکور کی جبکہ بابر اعظم ایک سنچری بنانے میں کامیاب رہے اور آخری میچ میں چار رنز کمی کی باعث سنچری سے محروم رہے۔ دونوں اوپنر بلے باز اگر دیگر نمایاں ٹیموں کے اوپنرز کی طرح اگر اوپر سے سکور کرتے تو پاکستان ٹیم اس بحرانی کیفیت سے دو چار نہ ہوتی۔ محمد حفیظ صرف انگلینڈ کیخلاف سکور کرنے میں کامیاب رہے جبکہ حارث سہیل بھی دو میچز میں بہتر نظر آئے، شعیب ملک کو جو دو مواقع دئیے گئے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے جبکہ آصف علی کو زیادہ چانس نہیں دیا گیا۔ کپتان سرفراز احمد ایک بار پھر پورے ٹورنامنٹ میں ناکام رہے اور ان کی بیٹنگ میں ناکامی کے ساتھ ساتھ غلط فیصلے بھی پاکستان ٹیم پر بھاری پڑے۔ باؤلنگ میں حسن علی کیلئے یہ ورلڈ کپ بھیانک خواب ثابت ہوا جبکہ شاہین شاہ آفریدی کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ شاہین نے بنگلہ دیش کیخلاف پانچ وکٹیں حاصل کیں جبکہ افغانستان اور نیوزی لینڈ کیخلاف بھی شاہین شاہ کامیاب رہے۔ وہاب ریاض اور محمد عامر نے بھی ایونٹ میں شاندار باؤلنگ کی لیکن بھارت کیخلاف میچ میں وہاب ریاض اور شاداب خان کی ناقص باؤلنگ پاکستان کی شکست کا باعث بنی۔
مجموعی طور پر پاکستان ٹیم کیلئے یہ ورلڈ کپ چند کھلاڑیوں کے سوا پوری ٹیم کی ناکامی کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان کے پاس سیمی فائنل تک پہنچنے کا نادر موقع تھا مگر ویسٹ انڈیز کیخلاف پہلے میچ میں 105 رنز پر آؤٹ ہونا اور پھر افغانستان کیخلاف مشکل سے میچ جیتنارن ریٹ پر منفی اثرات چھوڑ گیا جس کا خمیازیہ ٹیم کو میگا ایونٹ سے باہر نکل کر بھگتنا پڑا۔ شعیب ملک الوادعی میچ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ وہ ورلڈ کپ سے قبل ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکے تھے۔
کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر کی تقرری اسی ورلڈ کپ تک تھی، اب دیکھنا ہوگا کہ پی سی بی کیا تبدیلیاں لاتا ہے مگر کپتان کی ناقص حکمت عملی ، کمزور قیادت اور انفرادی کارکردگی میں ناکامی سرفراز احمد کیلئے مستقبل میں مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں تاہم یہ فیصلہ پی سی بی نے کرنا ہے کہ کیا قیادت سرفراز کے ہی پاس رہے یا مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے نیا کپتان مقرر کیا جائے۔