تحریر: لندن سے ساجد عزیز
کرکٹ کو ٹیم گیم کہا جاتا ہے اور یہ واحد کھیل ہے جس میں شکست اور جیت میں کپتان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی قیادت سرفراز احمد نے کی اور یہی سرفراز احمد دو سال پہلے چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم کے کپتان تھے مگر ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا پڑیگا کہ سرفراز بطور کپتان ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کے کمزور ترین کپتان ثابت ہوئی۔
کرکٹ میں کپتان نے صرف ٹاس کا سکہ نہیں اچھالنا ہوتا، کپتان نے وکٹ دیکھ کر اور اپوزیشن دیکر حتمی 11 کھلاڑی منتخب کرنا ہوتے ہیں۔ کپتان نے حکمت عملی ترتیب دینا ہوتی ہے، کپتان نے فرنٹ پر رہ کر فائٹ کرنا ہوتی ہے، کپتان نے باؤلرز کو ایک پلان کے تحت استعمال کرنا ہوتا ہے، کپتان نے پہلے دس اوور، پھر مڈل اوورز اور آخری دس اوور میں حریف بلے بازوں کو کیسے محدود رکھنا ہوتا ہے کی حکمت عملی بنانا ہوتی ہے۔ کپتان نے فیلڈرز کو پرجوش رکھنا ہوتا ہے، کپتان نے حریف بلے بازوں پر پریشر برقرار رکھنے کیلئے رسک لینے ہوتے ہیں، پھر بیٹنگ میں کپتان نے جب میدان میں آنا ہوتا ہے تو پوری ٹیم میں سب سے زیادہ ذمہ داری لینا ہوتی ہے، کپتان نے رن ریٹ، ہدف اور میچ جیتنے کیلئے آگے بڑھنا ہوتاہے نہ کہ صرف شکست سے بچنے کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ کپتان نے ایک اینڈ سے گرتی ہوئی وکٹوں پر خود وکٹ پر قیام کرنا ہوتا ہے، کپتان نے اپنا حوصلہ برقرار رکھنا ہوتا ہے اور دیگر کھلاڑیوں کو حوصلہ دینا ہوتا ہے۔ ہاں یہ سب کچھ اس ورلڈ کپ میں کپتانوں نے ایسا ہی کیا، ایون مورگن نے ایسا ہی کیا، ویراٹ کوہلی نے ایسا ہی کیا، اورن فنچ نے ایسا ہی کیا، کین ولیمسن نے بھی ایسا ہی کیا۔ اگر نہیں کیا تو سرفراز احمد نے ایسا نہیں کیا۔ اوپر لکھی گئی تمام ذمہ داریاں ان چار کپتانوں نے پوری کیں اور ان کی ٹیمیں سیمی فائنل میں موجود ہیں اور پاکستانی کپتان نے ان تمام چیزوں میں ناکام رہے اس لیے وہ اپنی ٹیم کو لیکر پاکستان واپس چلے گئے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سسٹم پر تنقید ہر روز ہوتی ہے لیکن اسی سسٹم میں رہ کر پاکستان نے دو سال پہلے چیمپئنزٹرافی جیتی اور اس سے ایک برس قبل مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن پر آئی لیکن آخر ورلڈ کپ سے پہلے اور ورلڈ کپ کے دوران ایسا کیا ہوا کہ پاکستان ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہ کرسکی۔ اگر اوپر بیان کی گئی تمام ذمہ داریاں پوری کی جاتیں تو پاکستان ٹیم سیمی فائنل میں ہوتی۔ مجھے حیرانی ہے کپتان سرفراز احمد آخری چار میچز کی جیت کو ڈھول بجا رہے ہیں ، جس میں افغانستان اور بنگلہ دیش دو کمزور حریف بھی تھے، مگر کپتان سے سوال ہے کہ کیا رن ریٹ کی کمی، افغانستان کیخلاف بری کرکٹ ، بھارت کیخلاف شکست، آسٹریلیا کیخلاف بری کرکٹ کھیلنے کا کون ذمہ دار ہے۔ کپتان سے سوال بنتا ہے کہ ان کی اپنی کارکردگی کیا رہی، کیا وہ ٹیم کو ایک بھی میچ جتوانے میں کامیاب رہے ؟ ہرگز نہیں۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم میں تمام کھلاڑیوں نے کسی نہ کسی میچ میں جیت میں کردار ادا کیا مگر کپتان کا کردار کہیں نظر نہ آیا۔ اب پی سی بی پر منصحر ہے کہ وہ اسی کمزور قیادت کے ساتھ ٹیم کو لیکر آگے چلے گا یا تبدیلی لازمی درکار ہے۔
اس ورلڈ کپ میں وہاب ریاض ، محمد عامر، بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی شاندار رہی، فخر زمان اور محمد حفیظ آؤٹ آف کلر دکھائی دئیے، شاداب خان کی کارکردگی ملی جلی رہی البتہ حسن علی کیلئے یہ ورلڈ کپ مایوس کن رہا ، شعیب ملک کو کم مواقع ملے مگر وہ ون ڈے کرکٹ سے ریٹائر ہوگئے اور ورلڈ کپ کو یاد گار نہیں بنا سکے۔ مجموعی طور پر پاکستان ٹیم اس ورلڈ کپ میں بہتر کرسکتی تھی لیکن ناقص حکمت ملی اور کمزور قیادت کیو جہ سے پاکستان سیمی فائنل تک نہ پہنچ سکی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو اب ادارک ہوگیا ہوگا کہ ٹیم میں لیڈر شپ کی کمی تھی جس کی وجہ سے پاکستان نے نادر موقع گنوا دیا۔ پاکستان صرف ورلڈ کپ میں نہیں ہارا، یہ ٹیم لگاتار 12 میچز میں شکست سے دوچار ہوکر ورلڈ کپ کھیلنے آئی، انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ سے ٹیم سیریز ہاری ، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان ٹیم بہتر ٹریک پر ہے۔ تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس میں لیڈر شپ کی تبدیلی ناگزیر ہے۔