تحریر: اعجازوسیم باکھری ( مانچسٹر اولڈ ٹریفورڈ )
دنیا میں بہت کم ایسے کرکٹر آئے جن کے پاس ‘‘کرکٹنگ مائنڈ‘‘ کی سند ہو۔ عمران خان کو یہ سند حاصل تھی اور آج بھی حاصل ہے، بارش سے متاثر سیمی فائنل میں جب بھارت 240 رنز کے ہدف میں صرف 5 رنز پر 3 وکٹیں گنوا بیٹھا تو اس تباہ کن ریلے سے بچ بچا کر کنارے لگنے کی بھارتی کوششوں کو دیکھ کر مجھے عمران خان کی کرکٹ تھیوریز میں سے ایک یاد آگئی کہ آج بھارت یہ میچ نہیں جیت سکتا کیونکہ بھارتی اس وقت شکست سے بچنے کی کوشش میں نظر آئے اور کرکٹ میں یہ تباہ کن حکمت عملی ہوتی ہے کہ جب آپ جیت کی بجائے شکست سے بچنے کی کوشش کیلئے کھیلتے ہیں۔ یہی حشر بھارتی ٹیم کا ہوا۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں دفاعی حکمت عملی میں تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
آج بھارت کے ساتھ یہی ہوا جبکہ چند دن پہلے پاکستان ٹیم کیساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا، پاکستان نے افغانستان کیخلاف جیت کی بجائے شکست سے بچنے کی کوشش میں میچ تو جیت لیا مگر رن ریٹ پر توجہ ہٹ گئی اور ہماری ٹیم سیمی فائنلز لائن اپ پوری ہونے سے پہلے ہی فلائٹ پکڑ کر وطن لوٹ گئی۔ کرکٹ میدان میں مثبت سوچ ہمیشہ کامیابی دلاتی ہے، غیر ضروری محتاط رویہ ہمیشہ نقصان پہنچاتا ہے، کپتان اور ٹیم کے تھینک ٹینک کا اس میں کلیدی کردار ہوتا ہے، میں دیکھ رہا تھا کہ روی شاستری اور کوہلی اوور پورے کھیلو اور سکور خود بخود بن جائیگا کی دفاعی حکمت پر چلے گئے تھے جس کا نتیجہ ہندوستان بھر میں سوگ کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ ویسٹ انڈیز کرکٹ کا عروج ہم سب کے سامنے ہے، چھ چھ فٹ کے فاسٹ باؤلرز حریف بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے اعصاب پر حملے کرتے تھے اور دنیا کی بہترین بیٹنگ اپ اپنی وکٹیں انہیں پلیٹ میں رکھ کر دے دیا کرتی تھی۔ مگر جب زوال آیا تو اس میں شکست سے بچنے کی کوشش سب پر غالب آگئی اور ٹیم ہمالیہ سے کسی کھائی میں جا گری جہاں اب تک اپنے پاؤں پر نہیں کھڑی ہوسکی۔ آسٹریلیا کے سٹیووا اور پونٹنگ کے ادوار میں آسٹریلوی پلیئرز کے کوئی چار چار ہاتھ نہیں تھے، مگر کیا تھا وہ جیت کیلئے کھیلتے تھے شکست سے بچنے کی کوشش کبھی نہیں کی ، ہنسی کرونئیے کے دور میں جنوبی افریقہ کی لازوال فتوحات کے پیچھے بھی اٹیکنگ کرکٹ تھی مگر جب جنوبی افریقہ ناک آؤٹ میچز میں شکست سے بچنے کی کوششوں میں پڑا آج تک اسی آسیب کے سائے میں گھرا ہوا ہے۔
یہ بات ہمیں تسلیم کرنا ہوگی کہ بہترین بیٹنگ اور بیٹنگ میں لگاتار تسلسل کا مظاہرہ کرنا اور کوالٹی باؤلنگ کی بدولت بھارتی ٹیم میگاایونٹ میں فیورٹ تھی لیکن جیسے ہی 240 رنز کے ہدف کا تعاقب شروع کیا تو ٹورنامنٹ میں پانچ سنچریاں سکور کرنے میں روہیت شرما آؤٹ ہوئے تو پوری بھارتی ٹیم غیر ضروری محتاط میں پڑ گئی اور یہ محتاط رویہ اور دفاعی حکمت عملی نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن بھانپ گئے اور انہوں نے اپنے باؤلرز کو بھی اس سے آگاہ کیا تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے بڑے بڑے برج ایک بعد ایک کرکے الٹنا شروع ہوئے اور صرف پانچ رنز پر بھارت کے تین اہم ستون روہیت ، کوہلی، اور راہول پویلین جا پہنچے۔ ان تینوں کے آؤٹ ہونے کے بعد دنیش کارتھک اور ہارڈیک پانڈیا نے بھی اپنی نچرل کرکٹ کھیلنے کی بجائے دفاعی حکمت عملی کا انتخاب کیا۔ حالانکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ مشترکہ سیریز ہوں یا آئی پی ایل کارتک اور پانڈیا حریف ٹیموں کیلئے مصیبت کھڑی کردیتے ہیں لیکن منفی سوچ دونوں پر غالب آگئی اور شاید ہیڈ کوچ روی شاستری بھی ایشین سٹائل میں 240 رنز کا ہدف پورا کروانا چاہتے تھے کہ وکٹ بچاؤ اور پورے اوور کھیلو سکور خود بخود پورا ہوجائیگا اور ولیمسن یہ بھانپ چکے تھے لہذا اس نے اٹیکنگ حکمت عملی برقرار رکھی اور جذبات پر قابو رکھا اور کیویز باؤلرز، کپتان اور فیلڈرز نے ہار نہیں مانی، وہ بھارتی ٹیم کی حکمت عملی اور دفاعی ایشین سٹائل پڑھ چکے تھے لہذا انہوں نے اعصاب پر قابو رکھا اور مارٹن گپٹل جو اس ٹورنامنٹ میں لگاتار فلاپ جارہے تھے مگر ڈریکٹ تھرو سے دھونی کو رن آؤٹ کرکے نہ صرف اپنی ساری ناکامی کا داغ دھو ڈالا بلکہ نیوزی لینڈ کو لگاتار دوسرے ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچا دیا۔ اب نیوزی لینڈ کے پاس پہلا ورلڈ کپ جیتنے کا بہترین موقع ہے مگر کیویز بیٹسمنیوں کو سکور کرنا ہوگا، بھارت جیسی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کے سامنے 240 رنز کا ہدف قلیل تھا لیکن منفی سوچ ان کو لے ڈوبی اگر آسٹریلیا یا انگلینڈ جو بھی فائنل میں کیویز کا مقابلہ کریگا نیوزی لینڈ کو بڑا سکور کرنا ہوگا۔