تحریر: لندن سے اعجازوسیم باکھری
ایک ماہ سے زائد وقت ہوگیا کہ میں انگلینڈ میں ورلڈ کپ کی کوریج کیلئے موجود ہوں، مختلف شہروں میں جاکر کرکٹ کوریج کی، میڈیا باکس کے کیفے ٹیریا اور میڈیا سینٹر کے باہر گورے صحافیوں کیساتھ سموکنگ زون میں گفتگو کے طویل دور ہوتے رہے اور مختلف اوقات میں گورے کرکٹ شائقین سے بھی واسطہ پڑتا رہا جوکہ اپنی طرز کا ایک دلچسپ تجربہ رہا۔ کرکٹ کو لیکر ان گوروں کے وہ مسائل نہیں جو ہم پاکستان کرکٹ میں دیکھتے ہیں،اور نہ گورے صحافی ہماری طرح کپتان، بورڈ، کوچ، سلیکٹر کی نااہلی پر لال پیلے ہورہے ہوتے ہیں، یہاں انفرادی اور ٹیکنیکل طور پر کرکٹرز کی ناکامی پر گفتگو ہوتی ہے اور اخبارات میں لکھا جاتا ہے، یہاں میرٹ پر کرکٹرز ٹیم میں آتے ہیں اور کپتان ایسا ہوتا ہے جس پر بورڈ، کھلاڑیوں، فینز اور میڈیا کو اعتماد ہوتا ہے، یہاں غلطی کو غلطی سمجھا جاتا ہے یا بدقسمتی کا نام دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں غلطی میں نااہلی دیکھی جاتی ہے اور کسی حد تک یہ سچ بھی ہے کیونکہ غلطی اور نااہلی میں نمایاں فرق بھی واضح ہوتا ہے۔ یہاں نااہلی جب سامنے آجائے تواس کو معاف بھی نہیں کیا جاتا۔
گوکہ انگلینڈ میں ہی کرکٹ کا آغاز ہوا اور آج بھی200 سال پرانے طرز پر کرکٹ انگلینڈ میں ہی کھیلی جاتی مگر یہاں کا مقبول ترین کھیل فٹبال ہے۔ انگلینڈ کی گزشتہ روز ورلڈ کپ کی جیت نے یہاں فٹبال شائقین کو بھی کرکٹ کی جانب راغب کردیا ہے۔ ہم ایشیائی دور بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ گورے کیسے یہ کرکٹ جیسا بور کھیل آٹھ اٹھ گھنٹے برداشت کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں مگر حقیقت میں یہاں کرکٹ کھیلنے، دیکھنے اور پسند کرنا والا طبقہ پوری آبادی کی اوسط سے بہت کم ہے۔ یہاں فٹبال کا جنون ہر شہری میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے مگر کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل کے اعصاب شکن معرکے نے یہاں گوروں کو بھی دیوانہ کردیا، بلکہ اگر میں پاگل کردو ں کا لفظ لکھوں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ بہت سوں کو قوانین کا ہی نہیں علم تھا کہ انگلینڈ دو مرتبہ ٹائی کھیل کر چیمپئن کیسے بن گیا۔ یہاں انگلینڈ میں نیوزی لینڈ کے ساتھ ہونیوالی قوانین کے تحت زیادتی پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ آئی سی سی کو اوور تھرو رن پر قوانین کو تبدیل کرنا چاہیے۔ اوور تھرو اگر بیٹسمین کو لگ جائے تو اس پر سکور نہیں ہونا چاہیے اور شاید آئی سی سی اس قانون کو جلد تبدیل بھی کردے۔