اسلام آباد(سپورٹس لنک رپورٹ)گزشتہ روز قومی ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو ٹیسٹ اور ٹی20 کی قیادت سے برطرف کردیا تھا جس پر مختلف ماہرین کرکٹ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔سرفراز احمد کو اپنی ناقص فارم کے سبب ایک عرصے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور عالمی نمبر ایک ٹی20 ٹیم کی ناتجربہ کار سری لنکن ٹیم کے ہاتھوں 0-3 کی کلین سوئپ شکست کے بعد پی سی بی کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور بورڈ نے سرفراز کو ٹیسٹ اور ٹی 20 کی قیادت سے برطرف کردیا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہاں ایک طرف چند حلقے سرفراز کو قیادت سے ہٹانے کے فیصلے کو درست قرار دے رہے ہیں تو کچھ لوگ خصوصاً ٹی20 کے کپتان کے عہدے سے سرفراز کو ہٹانے پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اسے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح اور باؤلنگ کوچ وقار یونس کے گٹھ جوڑ کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ان دونوں بڑوں نے لابنگ کر کے سرفراز کو گھر واپسی کا راستہ دکھایا۔سرفراز کو ابھی تک ون ڈے ٹیم کی قیادت سے ہٹانے کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن لگتا یہی ہے کہ بورڈ نے قومی ٹیم کی مستقبل قریب میں کوئی بھی ون ڈے سیریز نہ ہونے کے سبب یہ اعلان نہیں کیا اور سیریز قریب آتے ہی یہ اعلان بھی کردیا جائے گا۔گو کہ سرفراز احمد ابھی صرف 32 سال کے ہیں اور ابھی تک انہیں ٹیم سے ڈراپ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن حالیہ اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ شاید ان کا کیریئر بھی داؤ پر لگ گیا ہے اور کیا پتہ وہ دوبارہ کبھی قومی ٹیم کی نمائندگی کر سکیں یا نہیں؟دوسروں کا تو پتہ نہیں البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باؤلنگ کوچ وقار یونس کو اب سرفراز کا کیریئر ختم نظر آتا ہے اور وہ اپنی ٹوئٹ میں کافی حد تک اس بات کا عندیہ بھی دے گئے۔وقار یونس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ پیارے سرفراز، آپ نے بحیثیت کپتان پاکستان ٹیم کے لیے جو کچھ بھی کیا اس کے لیے آپ کا شکریہ، آپ کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔وقاریونس نے ہیش ٹیگ میں تھینک یو ٹائیگر کا لفظ بھی استعمال کیا۔
وقار یونس نے اپنی پوسٹ میں سرفراز کے لیے نیک خواہشات کا اظہار تو ضرور کیا لیکن ایسا لگتا تھا کہ ان کا یہ پیغام کسی رخصت ہونے والے کپتان کے بجائے کرکٹ کو خیرباد یا ریٹائرمنٹ لینے والے کرکٹر کے لیے ہے۔یاد رہے کہ ماضی میں سرفراز احمد اور وقار یونس کے درمیان تعلقات کچھ اچھے نہیں رہے اور یہی وجہ ہے کہ اب جب وکٹ کیپر بلے باز سے قیادت کا منصب واپس لیا گیا تو کچھ شائقین کرکٹ اس اقدام کو ٹیم میں لابنگ کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔بات جو بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2015 کے ورلڈ کپ کے دوران جب قومی ٹیم کو اوپننگ میں مشکلات کا سامنا تھا اور ناصر جمشید مستقل فلاپ ہو رہے تھے تو عوام کے پرزور اصرار کے باوجود اس وقت کے ہیڈ کوچ اور کپتان مصباح الحق انہیں موقع دینے کو تیار نہ تھے۔حد تو یہ تھی کہ جب ایک پریس کانفرنس کے دوران وقار سے کہا گیا کہ وہ سرفراز سے اننگز کی اوپننگ کیوں نہیں کراتے تو سابق ہیڈ کوچ نے جواب دیا کہ ‘کیا سرفراز اوپننگ بھی کرتے ہیں’۔اور جب سرفراز کو جنوبی افریقہ کے خلاف اہم ترین میچ میں موقع دیا گیا تو انہوں نے 49 رنز کی عمدہ اننگز کھیلنے کے ساتھ ساتھ وکٹ کے پیچھے 6 کیچ بھی پکڑے اور میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ لے اڑے اور پھر اگلے میچ میں آئرلینڈ کے خلاف سنچری بنا کر پاکستان کو کوارٹر فائنل میں پہنچانے کے ساتھ ساتھ لگاتار دوسرا مین آف دی میچ ایوارڈ بھی جیتا۔
ان کامیابیوں کے باوجود سرفراز کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ ون ڈے ٹیم کی قیادت کے لیے سرفراز کو نظر انداز کرتے ہوئے اظہر علی کو یہ منصب سونپا گیا، جی ہاں، وہی اظہر علی جنہوں نے اس وقت گزشتہ تین سالوں سے کوئی ون ڈے میچ نہیں کھیلا تھا۔پھر جب بورڈ نے وکٹ کیپر بلے باز کو ٹی 20 ٹیم کا نائب کپتان بنایا تو دورہ سری لنکا پر ہیڈ کوچ وقار یونس نے انہیں ہی ٹیم سے ڈراپ کردیا اور اس معاملے پر اس وقت کے چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے بھی اپنی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سرفراز کو ڈراپ کرنے کے حوالے سے وقار یونس سے بات کریں گے۔اس کے بعد ٹیم کی ناکامیوں کے پیش نظر وقار یونس نے ہیڈ کوچ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹس میں قومی ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی۔اب ایک مرتبہ پھر جیسے ہی مصباح اور وقار یونس نے قومی ٹیم کی باگ ڈور سنبھالی، تو ایک سیریز بعد ہی سرفراز کی دو فارمیٹس میں قیادت سے چھٹی کردی گئی اور ان کی قومی ٹیم میں جگہ بھی مشکل نظر آتی ہے۔سرفراز احمد کی فارم یقیناً کافی عرصے سے خراب چلی آرہی تھی لیکن اس سب کے باوجود عالمی نمبر ایک ٹی20 ٹیم کی قیادت سے سرفراز کو ہٹانے سے پی سی بی میں شفافیت کے عمل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور مستقبل میں اس کے بدترین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
وقار یونس نے اپنی اس ٹوئٹ سے سرفراز کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی یہ بات تو چند دن میں واضح ہو جائے گی لیکن اگر سرفراز کے کیریئر کو اس انداز میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو شاید وہ وقت دور نہیں جب کھلاڑی قومی ٹیم کی قیادت کو اعزاز کے بجائے بوجھ سمجھ کر اسے لینے سے ہی انکار کرنا شروع کردیں۔