اختر علی خان
دورہ آسڑیلیا پر موجود پاکستان کی نوجوان کرکٹ ٹیم تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز میں شکست کے بعد اب 21نومبر کو برسبین کے مقام پر آسڑیلیا کی مضبوط ٹیسٹ ٹیم کیخلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کیلئے پہلے ٹیسٹ کیلئے میدان میں اترے گی، اس سے قبل ٹیم دو پریکٹس میچ کھیل چکی ہے اور دونوں پریکٹس میچوں
میں پاکستان کی بیٹنگ لائن نے بلاشبہ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم اس کارکردگی کی بنیاد پر یہ کہہ دینا کہ پاکستان کی یہ نوجوان ٹیم آسڑیلیا کو کوئی بڑا چیلنج دینے میں کامیاب ہو جائیگی تو یہ خام خیالی یا حب الوطنی تو ہوسکتی ہے مگر غیرجانبدارانہ تجزیہ نہیں ہوسکتا،دونوں ٹیموں میں تجربے کا بہت فرق ہے،
پہلے ٹیسٹ میچ سے قبل آخری دو روزہ پریکٹس میچ میں بائولرز کی کارکردگی وہ نہیں رہی جس کی توقع کی جا رہی تھی اور کرکٹ ماہرین اور مبصرین کے مطابق آسڑیلیا کی ٹیم کو ٹیسٹ میں دو بار آئوٹ کرنا پاکستان کی ناتجربہ کار بائولنگ لائن کیلئے ممکن نہیں ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ اور سلیکٹر مصباح الحق بہرحال پرامید ہیں کہ ٹیم آسڑیلیا میں تاریخ رقم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے
ان کا پرامید ہونا غلط نہیں ہے کیونکہ وہ ٹیم کے کوچ ، سلیکٹر اور سب سے بڑھ کر کرکٹ بورڈ کے تنخواہ دار ہیں اگر وہ ایسا نہیں کہیں گے تو کون کہے گا، پاکستان کی ٹیم آسڑیلیا کےمیدانوں میں اس وقت تاریخ رقم کرنے میں ناکام رہی جب وسیم اکرم، انضمام، یونس خان، عمران خان، مصباح الحق، اعجاز احمد اور سلیم
ملک جیسے بڑے بڑے کھلاڑی اس کا حصہ تھے لہٰذا اس ناتجربہ کار ٹیم سے تاریخ رقم کرنے کی توقع کرنا بالکل غلط ہے، آسڑیلوی کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کھلاڑی اور مایہ ناز تبصرہ نگار ڈین جونز کا پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ آسڑیلیا کے بارے میں کہنا ہے کہ آسڑیلیا جیسی مضبوط ٹیم کیخلاف صرف دو پریکٹس میچوں کے بل بوتے پر کوئی بڑا اپ سیٹ کرنے کی توقع کرنا غلط ہوگا ڈین جونز جنہوں نے آسڑیلیا کیلئے
52ٹیسٹ میچ کھیل رکھے ہیں صرف دو پریکٹس میچ شیڈول ہونے کا قصور وار کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ خود ہے، یہاں انہوں نے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم نے رواں سال جنوری کے بعد سے اب تک کسی ملک کیخلاف ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا ہے لہٰٓذا صرف دو روزہ اور تین روزہ پریکٹس میچوں کے بل بوتے پر آپ آسڑیلیا جیسی ٹیم کو اس کے ہوم گرائونڈ پر کیسے شکار
کرسکتے ہیں وہ بالکل نئی نویلی ٹیم کے ساتھ، ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان کی ناتجربہ کار بائولنگ لائن کو آسڑیلیا جیسی مضبوط ٹیم کیخلاف مقابلے سے قبل آسڑیلیا میں ہی مزید پریکٹس کا موقع ملنا چاہئے تھا جو نہیں مل سکا،یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ برسبین اور دوسرا ایڈیلیڈ میں کھیلنا ہے جبکہ پاکستان کی ٹیم کو دونوں پریکٹس میچ پرتھ میں ملے ہیں اب پرتھ ، ایڈیلیڈ اور برسبین کی وکٹوں کے
بائونس میں زمین آسمان کا فرق ہے، لہٰذا پاکستانی بلے بازوں اور بائولرز دونوں کیلئے مشکلات پیدا ہونگی، پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہئے تھا کہ وہ پریکٹس میچوں کا انعقاد ٹیسٹ سے قبل برسبین اور ایڈیلیڈ میں ہی کرانے کیلئے کرکٹ آسڑیلیا سے بات کرتا مگر نجانے ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟آسڑیلیا کی وکٹوں پر مانوس ہونے کیلئے کسی بھی ایشین ٹیم کو کم از کم تین سے چار پریکٹس میچ بہرحال درکار ہوتے ہیں اور یہاں صرف دو
پریکٹس میچ کھیل کر کینگروز کو شکار کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم آج تک آسڑیلیا میں ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور پاکستان نے آخری بار کسی ٹیسٹ میچ میں جیت کا مزہ 1995 میں سڈنی کے مقام پر جیتا تھا۔