کوٹری(پرویز شیخ)نباتیات(حیاتیات) کے ماہر پروفیسر اور اپنے زمانے کے بہترین اسپورٹس مین پروفیسر نذیر احمد قاسمی اپنی سرکاری مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد قابل فخر انداز سے سبکدوش ہوگئے.گورنمنٹ ڈگری کالج لطیف آباد سے بحیثیت لیکچرر انکا شروع ہوا سفر کوٹری کے علی بابا گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج میں بطور پروفیسر,پرنسپل کی حیثیت میں شاندار انداز میں اختتام پذیر ہوا۔ اسے کوئی شک نہیں کہ انکی شخصیت کالج ایجوکیشن, سندھ بھر کے علمی و ادبی و اسپورٹس حلقوں کے لیئے قابل فخر ہے.وہ بیڈمنٹن اور کرکٹ میں مہارت رکھتے تھے. یہی وجہ ہے کہ انکے دور ملازمت میں گورنمینٹ کالج پھلیلی اور بعد ازاں مذکورہ کوٹری کالج ان کھیلوں میں مختلف اداروں کے تحت ہوئے مقابلوں میں ناقابل شکست رہی اور کئی کھلاڑیوں نے ڈویژنل, صوبائی اور قومی سطح پر حیدرآباد ڈویژن و اپنے کالج کا نام روشن کیا.
انکی مدت ملازمت کی تکمیل کے دن ملکی پیچیدہ حالات کے باوجود انکے چاہنے والوں نے بشمول ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید چنڑ, ایڈیشنل ڈائریکٹر کالجز (انسپیکشن) حیدرآباد پروفیسر شاہدہ پروین ابڑو علی بابا گورنمینٹ بوائز ڈگری کالج کوٹری کے پروفیسرز ڈاکٹرز فضل کریم صدیقی, الطاف احمد میمن, حافظ عبیداللہ راجڑ, شاہجہان پنہور, نواب پنہور, مصطفی کمال برڑو,ریاض میمن, فہیم میرانی,انوارالحق میمن,نذیر احمد شاہانی, عبدالقیوم, عبدالمجید منگریو, عدنان فاروق, مظفرعلی خان, عبدالطیف سوہو,نزاکت بابلانی,حافظ محمد سومرو,آفتاب راجپوت,صبیح الدین میمن,اسلم چنہ, فضل چانڈیو,رفیق شیخ,غلام سرور پنہیار,الطاف کوری,خلیل اللہ میمن,نسیم رضا سومرو,سید جوڑیل شاہ,اسلم کھوسو, ذوالفقار ہنگورو, ایاز کھوسو, مشتاق ملاح,ذاکر میمن, نورمحمد شیخ,شفیع چنہ,غلام حسین کھوسو,سینیئر لائبریرین عبداللہ بروہی,ربنواز لاشاری,سینیئر ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن پرویز احمد شیخ اور دیگر پروفیسرز, نان ٹیچنگ اسٹاف ممبران نے بالمشافہ مبارکباد دی اور پھولوں کے تحائف پیش کیئے جبکہ دور دراز موجود انکے پرستاروں, رفقاء, دوست احباب اور ملکی و بیرون ملک مختلف عہدوں پر فائز کثیر تعداد میں موجود انکے اسٹوڈینٹس نے برقی مواصلات کے زریعے اپنے تہنیتی پیغامات ارسال کیئے اور تاآں یہ سلسلہ جاری ہے.
بحیثیت اسپورٹس آرگنائزر و ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن ان سے 24 سالہ شناسائی رکھنے والے پرویز احمد شیخ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ وہ شروع دن سے ہی پروفیسر نذیر احمد قاسمی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ایسا ہونے میں کسی ایک بات کا عمل دخل نہ تھا کیونکہ دنیا میں عزت و مرتبے کے لیئے اپنی شخصیت و کارنامے وقت کے ساتھ ساتھ ہی اثرانداز ہوتے ہیں تاہم قبل از وقت ایسے اثرات مرتب کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ فرد کسی مشہور علمی, ادبی یا مذہبی گھرانے کا چشم و چراغ ہو یا کسی دانشور یا ماہر تعلیم کے خاندان کا چشم و چراغ ہو یا کسی چیمپیئن اسپورٹسمین کی آنکھوں کا نور ہو.کم از کم دو چار پشتوں تک تو یہ دھاک بیٹھی ہی رہتی ہے.پروفیسر نذیر احمد قاسمی علم و ادب کی مشہور شخصیت علامہ غلام مصطفی قاسمی کے صاحبزادے ہیں تاہم اس حوالے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی علمی و اسپورٹس صلاحیتوں سے اپنے آپ کو بہت جلد منوالیا جبکہ انکی پراثر و نفیس شخصیت اور شائستہ انداز گفتگو اور قول و فعل کے توازن نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا.
پروفیسر نذیر احمد قاسمی نے کوٹری کالج میں بحیثیت پرنسپل اپنی تعیناتی کے بعد اپنی کامیابی کو کالج اسٹاف کے بھرپور تعاون کا مرہون منت قرار دیا کہ جنکی بدولت کالج ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوچکا ہے.یہ انہی کا کارنامہ ہے کہ کالج میں کامرس فیکلٹی و کمپیوٹر لیب کا آغاز ہوا جبکہ کالج کی لائبریری کو کمیوٹرائزڈ بھی کیا گیا جبکہ گزشتہ 7 سالوں کی رپورٹ پر مبنی کالج میگزین کو اجراء کے قابل بنایا جس میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ اسپورٹس سمیت دیگر ہم نصابی و معلوماتی مواد شامل کیا گیا ہے.انکی انہی کاوشوں کے پیش نظر یہ تاثر عام ہے کہ ہر ادارے کو پروفیسر نذیر احمد قاسمی جیسی قائدانہ صلاحیتوں کی مالک شخصیت کی ضرورت ہے.