لیجنڈ کھلاڑی اور کوچنگ

استاد کی اہمیت اول سے لیکر آخر تک رہے گی چاہے وہ کوئی بھی شعبہ زندگی کیوں نہ ہو ۔ جب سے گلوبل ویلج کا زمانہ شروع ہوا ہے تو استاد کو کوچ کہنا شروع کردیا ہے اب تو نصاب کی تعلیم دینے والے بھی کوچنگ اکیڈمی کا بورڈ چسپاں کرنے لگے ہیں مگر میرا موضوع صرف کرکٹ کوچنگ تک ہی محودود رہے گا۔  آجکل پاکستان میں ایک بحث زبان زدعام ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم انگلستان کا دورہ کرنے جارہی ہے تو اس دورہ کیلئے دو عدد مزید کوچز کو شامل کیا گیا ہے پاکستان کے لیجنڈ بیٹسمین یونس خان کو بیٹنگ کوچ مقرر کیا ہے اور مشتاق احمد کو سپن بولنگ کوچ ۔ پہلے سے موجود ہیڈ کوچ مصباح الحق وقاریونس بالنگ کوچ شاہد اسلم اسسٹنٹ کوچ، عبدالمجیدفیلڈنگ کوچ یاسرملک سٹرینتھ اینڈ کنڈیشن کوچ کے طور پر ٹیم کے ساتھ موجود ہیں ۔منصور رانا مینیجر اور دیگر اینلسٹ فزیو میڈیا منیجر  پتا نہیں کون کون سی آسامیاں پیدا کرکے 14سپوٹنگ سٹاف اور28 کھلاڑیوں کو دو ماہ برطانیہ کا دورہ کرایا جارہا ہے ۔


شاہد اسلم لیول فور کوالیفائڈکوچ ہیں جو لیجنڈ کے سامنے نہ تین میں نہ تیرہ میں مصباح ، وقار،ثقلین، مشتاق احمد ، یونس خان ، منصور رانا جیسی بھاری بھر شخصیات کے سامنے وہ کیا بیچیں گے ؟ یہ ہے موجودہ PCB کا مائنڈسیٹ۔
جو کسی کوالیفکیشن اور سپیشلائزیشن پر بلکل بھی یقین نہیں رکھتی۔ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی ویژن نہیں ہے۔ زبانی اعلانات ہوتے ہیں کہ کرکٹ کو جدید خطوط پر استوار کریں گے مگر عمل اسکے بلکل برعکس ہوتے ہیں۔ پہلے تو گیارہ یا سولہ ایسے  کھلاڑیوں کیلئے اتنے زیادہ کوچز اور سپوٹنگ سٹاف کی ضرورت ہی نہیں جو تربیت کے درجنوں مراحل کلب کرکٹ سے لیکر ڈیپارمنٹس اور پھر نشنل کرکٹ اکیڈمی میں کئی سالوں سے طے کر کے آئے ہیں ۔ اب انکو کوچنگ کی نہیں پرفارم کرنے ضرورت ہے۔اگر وہ پرفارم نہیں کرتے تو پھر آپکی سلیکشن میں خامیاں ہیں۔ سلیکشن کی بنیاد ہی مضبوط ٹیکنیک، مضبوط دماغ، مضبوط فٹنس ہوتی ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں دیکھے بغیر آپ نے کسی کو سلیکٹ کرلیا ہے تو پھر ان سے اچھی پرفارمنس کی توقع رکھنا اپنے آپکو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔  چاہے  بیس کوچ کسی دورے میں کیوں نہ رکھ لیں۔ میرے مطابق کسے بھی ٹور یا ایونٹ کیلئے ایک کوچ اور ایک ٹیم منیجر کافی ہے۔ کبھی کبار چھوٹا سا فالٹ آتا ہے تو کھلاڑی آوٹ آف فارم ہوجاتا ہے اور پرفارمنس میں واضیع کمی نظر آتی ہے جوکہ ساتھ موجود کوچ کو بھی نظر آنی چاہیئے اوراس فالٹ کو دور کرنے کا طریقہ بھی کوچ کوپتہ ہونا چاہیئے تاکہ دوسری دن نیٹ میں اسے ایک گھنٹے میں دور کیا جائے جوکہ سوفیصد ممکن ہوتا ہے۔ واپس اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔


کیا ہر لیجنڈ کھلاڑی اچھا کوچ بھی ہوسکتا ہے ؟ اس میں دو قسم کی آراء پائی جاتی ہیں ۔ ایک رائے عام لوگوں کی ہے کہ ہاں لیجنڈ کھلاڑی اچھا کوچ ہوسکتا ہے اور ایک رائے ماہرین کی ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔
 میرے تجزیئے کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ آج کی ماڈرن کرکٹ میں کسی کو اس بنیاد پر کوچنگ کی زمہ داری دینا کہ وہ اپنے دور کا لیجنڈ کھلاڑی تھا اپنے پاوں پر کہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ مثال کے طور پر جب کوچنگ باقائدہ آرٹ نہیں تھی تو ٹیم کا کپتان یاکوئی سینئر اچھا کھلاڑی اپنے باقی کھلاڑیوں کی تربیت بھی کرتا رہتا تھا جو ان کیلئے اس دور میں فائدہ مند ہوتا تھا اور کھلاڑیوں میں کچھ نہ کچھ بہتری آتی رہتی تھی۔ پھر کرکٹ نے اور ترقی کی تو سابقہ لیجنڈ کھلاڑیوں کو بطور منیجر پلس کوچ رکھنے کی روایت پڑھی جوکہ اس دور کے حساب سے سود مند رہی اور کرکٹ نے مزید ترقی کی تو ایک سابقہ لیجنڈ کو منیجر اور ایک کو کوچ بناکر ٹیموں کے تھ دوروں پر بیجھ دیا جاتا رہا۔ یہاں سے دو لیجنڈ میں مرغی حرام ہونا شروع ہوئی اب کوچ اپنے انداز سے تربیت یا ٹیکنیک سکھاتا ہے اور مینیجر بھی نیک نیتی سے اپنے فن اور تجربے سے لڑکوں کو مستفید کرنے کی کوشش کرتا ہے اب دونوں کا سکھانے کا طریقہ کار مختلف ہوسکتا تھا کچھ لڑکے منیجر کے طریقہ کار سے خوش اور کوچ کے طریقہ کار سے ناخوش جوکہ ایک فطری عمل ہے۔ اسطرح جب دورہ جیت پر بھی ختم ہوتا تو منیجر کی رپورٹ کوچ اور کچھ کھلاڑیوں کے خلاف اور کوچ کی رپورٹ منیجر اور کچھ کھلاڑیوں کے خلاف اپنے بورڈ کو جاتی اور اخبارات میں ٹیم کی گروپ بندی کی شہہ سرخیاں لگتیں کپتان اگر منیجر والے گروپ کے ساتھ ہوا تو منیجر اگلے دورے پر کوچ بن گیا اور کوچ کی چھٹی کراکر ایک اور لیجنڈ کو منیجر لگا دیا جاتا اور یہ تجربہ دنیا بھر میں اسی فیصد ناکام ہوتا رہا اور اپنے وقت کے لیجنڈ اسطریقہ کار کی وجہ سے رسوا ہوتے رہےاور ٹیموں میں پلیئر پاور اورگروپبندیاں ہوتی رہیں آخرکار20 ویں صدی کے اواخراور 21ویں صدی کے اوائل میں دنیا کرکٹ نے ان مسائل کا یہ حل نکالا کہ کوچنگ کو باقائدہ ایک الگ شعبہ بنایا جائے چونکہ کرکٹ دنیا بھر میں تیزی سےپزیرائی حاصل کررہی تھی اور پیسے کو بھی اپنی طرف کھینچ رہی تھی اس تیزی نے کھلاڑیوں کے کیریئر کی طوالت کو کم کردیا تھا بہت سے کھلاڑی چند میچ کھیلے مگر ٹیم میں اچھا پرفارم نہیں کرسکے یا کسی بھی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوگئے یا فسٹ کلاس کرکٹ کھیلی مگر قومی ٹیم میں جگہ نہ بن سکی تو انہوں نے اپنے کرکٹنگ شوق اور گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کیلئے  امپائرنگ یا کوچنگ کو باقائدہ پرفیشن بنایا اورمختلف علاقائی صوبائی ادارہ جاتی ٹیموں کیساتھ کام کرنا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ کوچنگ کی اکیڈمیاں جو بن رہی تھیں یا بن چکی تھیں ان میں داخلے حاصل کرکے باقائدہ ماڈرن ٹیکنیکس سیکھیں اور سکھانے کےجدید انداز سیکھے اور اپنی سیکھی ہوئی چیزوں کو دوسروں تک منتقل کرنے کا طریقہ سیکھا اور اس پر عمل کرکے آگے بڑھے تو سنتھ جے سوریا ساتویں نمبر پر کھیلنے والا اور وکٹ کیپرکالووترانا اوپنر بن گئے اور سری لنکا جیسی آٹھویں نمبر کی ٹیم کو ولڈ چیمپین بناڈالا ڈیو وٹموربطور کھلاڑی کوئی لیجنڈ نہیں ہے باب ولمر کوئی لیجنڈ نہیں تھا۔ مکی آرتھر کوئی لیجنڈ نہیں ہے ۔ پچھلے بیس سال میں کرکٹ نے جو بلندیاں حاصل کی ہیں اس میں کسی لینجڈ کھلاڑی کی کوچنگ کا پانچ فیصد بھی عمل دخل کوئی ثابت نہیں کرسکتا ۔یہ سب کمال ان گمنام پروفیشنل کاہے جنہوں نے شاہد آفریدی اے بی ڈیولیر ، جے سوریا وغیرہ کوبطور بیٹسمین تسلیم کرایا جو بعد میں لیجنڈ بن گئے ۔ چند لیجنڈ کھلاڑی اگر کچھ ٹیموں کی کوچنگ کر بھی رہے ہیں تو انہوں نے بھی باقائدہ کئی سال کوچنگ کی تعلیم حاصل کی ہے ماسوائے پاکستانی کوچز مصباالحق یونس خان وقار یونس،ثقلین،مشاق احمد،وغیرہ ۔ شاہد اسلم  کوچنگ میں زیرتعلیم رہے ہیں شاید لیول فور کرلیا ہے مگر اوپر بتا چکا ہوں انکی حیثیت اس کوچنگ سٹاف میں بارویں کھلاڑی جیسی ہے۔ دنیا کے تمام لیجنڈ اپنے دور کے عظیم کھلاڑی رہے اسوقت ان سے بہتر دوسرا نہیں ہوتا تھا تبھی تو انہوں نےریکارڈ قائم کئیے تب ہی تو وہ لیجنڈ کہلائے۔ مگر یہ بات فطرت کے خلاف ہے کہ وہ آج بھی اتنے ہی عظیم ہیں یا وہ آج بھی اسی طرح کے کارنامے سرانجام دینے کے قابل ہیں ؟ اس دور میں انکی صلاحیتوں سے انکار کرنا اتنا ہی بڑا دھوکہ ہے جتنا آج انکی صلاحیتوں سے جدید کام لینے کا دعوہ کرنا۔


میں خدانخواستہ کسی کی توہین نہیں کرتا صرف سچ دیکھانے کیلئے کچھ مثالیں دینا چاہتا ہوں اور اپنا مشاہدہ اپنا تجزیہ پیش کرناچاہتا ہوں۔ مثال کے طور پر سر ڈان بریڈمین کی ایورج تو ہر بیٹسمین حاصل کرنے کی خواہش آج بھی رکھتا ہے مگر ایمان داری سے بتایا جائے انکے سٹانس اور بیلنس سے کوئی کلب کا بچہ بھی کھلنا پسند کرتا ہے ؟ انکی ویڈیو دیکھنے والا کبھی اس انداز کو پسند نہیں کرے گا کیونکہ اس انداز سے آجکل کی شاطر کیچنگ، فیلڈنگ اور بالنگ ورائیٹی میں کوئی بیٹسمین t20/odi تو کیا ٹیسٹ میں بھی سنچری سکور نہیں کرسکتا ٹیسٹ میں اگر ایک آدھ سنچری ہو بھی جائے تو وہ جیتے ہوئے میچ کو ڈرا کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی طرح وسیم اکرم دنیا کرکٹ کے عظیم فاسٹ بالر تھے مگر اس وقت شاہد آفریدی ،اے بی ڈیولیئر ،ویرات کوہلی ، جوس بٹلر، کولن مونرو ، ولیمسن، سٹیف سمتھ ، وغیرہ تین چار درجن اچھے بیٹسمین مدمقابل نہیں تھے۔  ایک دو کھلاڑی سچن ٹنڈولکر ،برائن لارا، سعیدانور، مارٹن کرو ،رکی پوائنٹنگ گیری کرسٹن وغیرہ ہرٹیم میں ایک دونام ہوتے تھے جو انکو بھی خاطر میں لائے بغیر رنز بناتے تھے اور جوں ہی یہ آوٹ ہوتے  باقی ماندہ کھلاڑی نہ ٹیکنکلی اور نہ منٹلی بہتر ہوتے تھےجو ایسے کوالٹی بالرز کا شکار بنتے اور ٹیم ڈھیر ہوجاتی۔ میں ایمانداری سے کہتا ہوں آجکل کی کلب کرکٹ 80 سال پہلے کی ٹیسٹ کرکٹ سے ٹیکنیکلی بہت بہتر ہے جو ٹیکنیک بیٹنگ کی آج ٹیسٹ ٹیموں کے آخری نمبر والے کھلاڑیوں کی ہے وہ پچاس سال پہلے کے اوپنر بیٹمینوں کی ہوتی تھی اس بہتر ٹیکنیک کی وجہ وہ عظیم لیجنڈ نہیں بلکہ ماڈرن کوچنگ ایجوکیشن ہے جس نے سٹانس سے لیکرفٹورک تک ہر جگہ بہتری لائی ہے  ۔


ان مثالوں کا مطلب یہ ہے کہ جب سے کوچنگ ایک آرٹ اور پروفیشن کے طور پر متعارف ہوئی ہے اس میں ان نان لیجنڈ مگر کوالفائیڈ کوچز ہی کا کمال ہے ۔ یہ جو دنیا میں کرکٹ کا عروج ہے اسمیں ان گمنام کوچز کا 80% کردار ہے جنکی خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے سابقہ لیجنڈ کے زریعے انکا راستہ روکنے کی کہی ملکوں میں اب بھی کوشش کی جاتی ہے موجودہ PCB اس سلسلہ میں رول ماڈل ہے جنہوں نے تو پاکستان سے کوالی فائیڈ کوچزکا کانسپٹ کورونا وباء سمجھکر ہائی لیول کیا نچلے لیول سے بھی نکال دیا ہے ۔ اگر لیجنڈ ہونا ہی کوالیفکیشن ہے تو بقیہ تمام لیچنڈ کو امپائرز کیوں نہیں لگایا جاتا ؟ انکے لئے کورس اور تعلیم ضروری کیوں ہے ؟ تمام لیجنڈ اچھے کپتان ثابت نہیں ہوئے تو اچھے کوچ کیسے ثابت ہونگے ؟ ہاں کچھ انسان ہوتے ہیں ملٹی پل صلاحیتوں کے مالک جو ہر شعبہ میں جلدی سیکھتے ہیں اور اچھے نتائج دیتے ہیں۔ مگر عملی تجربہ کے بغیر کسی کو ایسی پوسٹ پر لگانا جس پوسٹ  کیلئے ملکی اور غیرملکی کوالی فائیڈ اشخاص موجود تھے حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ایک اور مثال موجود ہے جب اس صدی کے شروع میں جن ملکوں نے اس جدید کوچنگ کو اپنایا تو دنیا کی کرکٹ نے بڑے بڑے جمپ مار کر ترقی کی وہ معراج دس بیس سالوں میں پائی جو پچھلی ڈیڑھ صدی میں کوئی ایک ملک یا ٹیم نہ پا سکی۔ ہمارے پاکستان نے بھی پچھلے بیس سال میں کرکٹ میں ترقی ضرور کی ہے مگر ہماری کنفیوز پالیسیاں اور تسلسل کا ٹوٹ جانا اقرباء پروریوں نے اسکی رفتار بہت آہستہ رکھی جسکی وجہ سے کرکٹ کے دوسرے ہمارے ہم پلہ ٹیموں کا اور ہمارا فرق بہت زیادہ ہوگیاہے ۔ پاکستان میں جنرل توقیر ضیاء کے دور میں نشنل کرکٹ اکیڈمی بننے کے بعد کوچنگ ڈولپمنٹ پروگرام کے تحت بہت سے لوگوں کو جدید کوچنگ تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی گئ جسمیں بہت سے لوگوں نے  پندہ بیس بیس سال اکیڈمی اور حقیقی گراونڈز میں تعلیم حاصل کی اور لیول فور ماسٹر کوچز کی ڈگریاں حاصل کیں اور کچھ منظور نظر پر ایک ایک ہفتہ کی کرامات سے ڈگریاں بانٹ دی گئیں مگر ماسٹر لیول کے لوگوں کو وہ اسائنمنٹ نہیں دی گئیں جنکے وہ حقدار تھے اور نیشنل ٹیم کے ساتھ غیرملکی کوچز کو لگایا جاتا رہا تاکہ ٹیم کی ہار پر اپنی سٹرکچرل سلوپراگرس کو چھپایا جاسکے اور ہار کو غیرملکی کوچ کے گلے میں ڈال کر اسے نکال دیا جائے اور خود میڈیا اور عوامی تنقید سے بچ جائیں اور اپنی بھیڑ چال جاری رکھیں۔ ابھی جو دوسال سے  PCB نے کرکٹ کے ڈھانچے کو توڑ پھوڑ کر تباہی کی جانب گامزن کیا ہے اس میں یونس خان سمیت چودہ سپوٹنگ سٹاف سے مجھے تو کسی معجزے کی توقع نہیں ہے ۔ میں ویسے بھی کھیلوں میں  معجزات کا قائل نہیں ہوں۔ اللہ تعالی پاکستان ٹیم کو اور یونس خان کو دورہ انگلینڈ میں سرخرو کرے۔آمین

error: Content is protected !!