کوٹری(پرویز شیخ)اس وقت کورونا وائرس وبائی بیماری دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں پھیل چکی ہے۔اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سماجی اور جسمانی دوری پر عمل درآمد کرانے کے اقدامات ، کاروبار ، اسکولوں اور مجموعی معاشرتی زندگی کے لاک ڈاؤن معمول بن چکے ہیں۔جس کے باعث کھیل اور جسمانی سرگرمیوں سمیت زندگی کے بہت سے باقاعدہ پہلو بھی متاثر ہوئے ہیں۔یہ بات اب عام فہم ہے کہ قوموں کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں کھیلوں کا بڑا اہم حصہ ہے اور خاص کر کھیلوں سے خواتین اور نوجوان افراد اور معاشروں کے بااختیار ہونے کے ساتھ ساتھ صحت ، تعلیم اور معاشرتی شمولیت جیسے مقاصد کے حصول بھی ممکن ہوتے ہیں۔کھیلوں کے اس کے کردار کو حکومتوں، سیاستدانوں، سماجی رہنمائوں, مختلف نجی تنظیموں اور اسپانسرز نے اب اچھی طرح سے پہچان لیا ہے اور انکے لیئے سالانہ بجٹ میں مخصوص فنڈ رکھا جاتا ہے۔
اب جبکہ کھلاڑیوں اور دیگر افراد کی صحت کی حفاظت کی غرض سے بین الاقوامی ، علاقائی اور قومی سطح پر کھیلوں کے بیشتر اہم مقابلوں کو منسوخ یا ملتوی کردیا گیا ہے۔خاص طور پر پیرا اولمپکس اور جدید کھیلوں کی تاریخ میں پہلی بار اولمپک گیمز ملتوی کردیئے گئے جو کہ اب 2021 میں منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ان حالات میں کھیلوں کی صنعت تباہی کی طرف جانا شروع ہوگئی ہے۔دوسری طرف عالمی سطح پر بہت سارے کھلاڑیوں اور کوچز کی ملازمتوں کے ختم ہونے کا خطرہ ہے۔نہ صرف بے روزگاری کا یہ خطرہ پیشہ ور کھلاڑیوں،کوچز یا مینیجمینٹ کے افراد کے لئے ہے بلکہ چیمپیئن شپس، لیگز اور افتاحی و اختتامی تقریبات سے وابستہ کھانے پینے اور برتنے کا سامان بیچنے والے اور کھیلوں کی سامان سے متعلقہ صنعتوں کو بھی ہے جن میں سفر ، سیاحت,بنیادی ڈھانچہ, نقل و حمل,کیٹرنگ اور میڈیا براڈکاسٹنگ وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان فیڈریشن بیس بال کے صدر سید فخر علی شاہ نے نقصانات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے کھلاڑیوں کو ابتدائی دو ہفتے آئیسولیشن میں رکھ کر اپنے گھروں میں سیلف پریکٹس کا نہ صرف عندیہ دیا بلکہ انکی آن لائن نگرانی بھی کروائی۔تاہم عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بچانے کے لیئے ان سب کو ناکافی سمجھتے ہوئے انہوں نے بار بار حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے اور ان سے اسلام آباد میں اسپیشل کیمپس کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔ان حالات میں اب ان تمام متعلقہ متاثرہ افراد اور کھلاڑیوں وغیرہ کو حالات بہتر ہونے کا صرف انتظار ہی نہیں کرنا ہے بلکہ ان تمام پر اور خاص طور پر پپیشہ ورانہ کھلاڑیوں پر بہت دباؤ پڑچکا ہے کہ وہ گھر میں فٹ رہنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی تربیت کا نظام الاوقات ترتیب دیں کیونکہ انھیں پیشہ ور اسپانسرز کو کھونے کا خطرہ ہے جو کہ فی الوقت ان کی حمایت نہیں کرسکتے ہیں۔کھلاڑیوں میں بے روزگاری انہیں بے چین کررہی ہے۔آرگنائزرز کو اسپانسرز نہ ملنے کا خدشہ مایوسی کی طرف لے جارہا ہے۔
اسمعاشی بدحالی کے علاوہ ، کھیلوں کی عالمی اور علاقائی سطح پر منسوخی بہت سے سماجی فوائد پر بھی اثر ڈاتی ہے جن میں معاشرتی ہم آہنگی کا مستحکم ہونا، شائقین کے معاشرتی اور جذباتی جوش وخروش میں اضافہ، کھلاڑیوں کے ساتھ ان کی شناخت وغیرہ شامل ہے۔ کھیل کو طویل عرصے سے معاشروں اور نسلوں کے مابین مواصلات کو فروغ دینے اور پل بنانے کے لئے ایک قیمتی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کھیل کے ذریعہ مختلف سماجی گروہ ، خاص طور پر منقسم معاشروں میں سماجی تبدیلی اور ترقی کی طرف زیادہ مرکزی کردار ادا کرنے میں اہم کردار ادا کرتےہیں۔ اس تناظر میں کھیل کو سیکھنے کے مواقع پیدا کرنے اور اکثر معمولی یا خطرہ والی آبادیوں تک رسائی حاصل کرنے کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کھیلوں کی بڑی تنظیموں نے وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کی کوششوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ کھلاڑیوں کی زیرقیادت کورونا وائرس کو ختم کرنے کے لیئے پیغام مہم چلائی ہے اور وہ لوگوں سے زیادہ تر یہ ہی مطالبہ کرتے نظر آئے ہیں کہ وہ اس روک تھام کے لئے پانچ کلیدی اقدامات پر عمل کریں۔ بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لیئے ہاتھ دھونے ، کھانسی کے آداب، کسی کے چہرے کو نہ چھونے، جسمانی فاصلہ قائم رکھنے اور اگر بیمار محسوس ہوتا ہے تو گھر ٹھہرنے پر توجہ مرکوز کرائی جارہی ہے۔اس ضمن میں نقل حمل پر پابندی کے باعث ترقی اور امن کی تنظیمیں یکجہتی و کمیونٹی کے چیلینجز اور مسائل کو بانٹنے کے لئے صرف آن لائن تبادلہ خیال کررہت ہیں جس سے غیر ترقی یافتہ علاقوں کے کھلاڑی صد فی صد فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔
ممتاز فزیکل ایجوکشنٹ و اسپورٹس سائنسز میں پاکستان کی پہلی خاتون پی ایچ ڈی پروفیسر ڈاکٹر یاسمین اقبال سے اس معاملے پر ہوئی گفتگو میں انہوں نے اس بات کی توثیق کی کہ کھیلوں کی ترقی میں تعلیمی اداروں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے.تعلیمی ادارے جسمانی و ذہنی تندرستی،نیز معاشرتی رویوں اور طرز عمل کو فروغ دینے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے.اس وقت کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کی بندش نے کھیلوں کے تعلیم کے شعبے کو بہت ہی بری متاثر کیا ہے۔تعلیمی اداروں میں کھلاڑی اپنے پسندیدہ کھیل کی طرف راغب ہوتے ہیں اور کوچز سے بنیادی تکنیکس سیکھتے ہیں اور یہ تمام فوائد آن لائن حاصل نہیں ہوسکتے اس لیئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قومی وزارتوں اور مقامی حکام ، سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں،کھیلوں کی تنظیموں اور کھلاڑیوں ، این جی اوز سمیت دیگر وسیع پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز اور کاروباری برادری ، اساتذہ ، اسکالرز اور کوچز ، والدین اور سب سے زیادہ نوجوان سیکھنے والوں کو موجودہ بحران نے بری طرح متاثر کیا ہے لیکن اس پر قابو پانے کے لیئے بہترین حل لاک ڈائون اور خود کو قرنطینہ کرنے کے ساتھ ساتھ ضرورت کے تحت باہر نکلنے والوں کا آپس میں سماجی فاصلہ فاصلے ہی کلیدی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔بڑے نقصانات کے سامنے چھوٹے نقصانات اہمیت نہیں رکھتے اس لئے حکومت کو روز مرہ کے کمانے والوں کے کھانے پینے اور ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے سخت ترین لاک ڈائون یا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرانا ہوگا۔