ایبٹ آباد (سپورٹس رپورٹر) ایبٹ آباد سے اراکین اسمبلی کی عدم دلچسپی اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پی کے،کی نا اہلی بے توجہی اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ایبٹ آباد ہاکی سٹیڈیم گندگی اور غلاطت کے جوہڑ اور فلتھ ڈپو میں تبدیل ہو گیا ہے اورگذشتہ تین سالوں سے نئی آسٹرو ٹرف کی منطوری اور بچھانے کا عمل خواب سے تعبیر کی راہوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے اور ابھی تک کسی مسیحاء کا منتظر ہے جبکہ دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتیں نئی ٹرف کی فراہمی پر متفق ہی نہیں ہو سکے
اور یہ ٹرف دونوں حکومتوں کے درمیان ایک سینڈوچ بن چکی ہے جس سے ہاکی کا تباہ حال کھیل مزید پستی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے اور ایبٹ آباد کی کھیلوں کی مختلف تنظیموں نے اس حکومتی بے حسی پر سخت غم و غصے کا اطہار کرتے ہوئے فوری طور پر نئی آسٹرو ٹرف بچھانے اور ہاکی سٹیڈیم کی حالت زار بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے ہزارہ کا تاریخی ایبٹ آباد ہاکی ستٰیڈیم جس میں 2006 میں آسٹروٹرف بچھائی گئی تھی جس کے بعد یہ سٹیڈیم تقریبا دس سال سے زائد تک قومی ہاکی سرگرمیوں کا مرکز ومحور رہا جہاں پاکستاں سنیر ،پاکستان وائیٹ، پاکستان جونیر ٹیموں کے لاتعداد تربیتی کیمپس کے انعقاد سمیت لاتعدا آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹس
نیشنل سنیراور جونیرز چمپینزشپس اور قومی کھیلوں کے ہاکی ایونٹ کی میزبانی کاشرف بھی اپنے نام رکھتا ہے اور اپنے معتدل موسم کی بنا ء پر ایبٹ آباد کو ہمیشہ دوسرے شہروں پر فوقیت حاصل رہی لیکن 2011 میں ہونے والی شدید برف باری سے پہلے ناقص شیڈز برف کا بوحھ برداشت نہ کر پائے اور زمین بوس ہو گئے پھر نئے شیڈز کی منظوری کے نعرے بھی نعرے ہی رہے پھراسی طرح 2017کے برسات کے موسم میں شدید بارشوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی برسات کے بھپرے پانی نے نہ صرف سٹیڈیم کی دیوار کو ملیا میٹ کرتے ہوئے پوری آسٹرو ٹرف اور سٹیڈیم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اسکے بعددیوار تو لگا دی گئی لیکن سٹیڈیم میں پانی کی نکاسی کے بدستور عمل کو نہیں روکا جاسکا ہے
اب حالت یہ ہے کہ مذکورہ سٹیڈیم تباہ حالی کا ایسا نمونہ بن چکا ہے جہاں کوئی چیز سلامت نہیں سپورٹس آفس اور اس کا کثیر تعداد میں موجود سٹاف کے ہونے کے باوجود حفاظتی گرلیں ،سٹیڈیم م میں نکاسی کی نالیوں پر موجود لوہے کے سیوریج کورز بھی غائب ہونے کے علاوہ سٹیڈیم کی نصب شدہ فائبر کرسیاں جہاں تباہ حالی کا منظر پیش کر رہی ہیں وہاں دوسری جانب کیچڑ ،دلدل، گندگی ،غلاظت کچھ اور ہی پتہ دے رہی ہیں اور پرانی نامکمل ٹرف اپنے نئے مکین اور مسکن کی راہ تک رہی ہے لیکن اسے کوئی مکین اور مکان نہیں مل رہاجبکہ سپیکر کے پی ،کے بارہا وعدوں کے باوجوداور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اعلی حکام ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کی مکمل بے حسی، نا اہلی، بے توجہی،اور مقامی ہاکی ایسوسی ایشن کا غیر فعال کردار بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے
کہ شہر کے اہم ورثے کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے اور ہزاروں گراونڈز بنانے کے نعرے لگانے والے کیا ایک موجود گراونڈ اور ورثے کونہیں سنبھال سکتے وہ مزید کھیل کی ترقی کے لیے کیا کریں گئے اور نئی بلیو ٹرف بچھانے کی ذمہ داری وفاق یا صوبے میں سے کون نبھائے گا اسکا جواب تاحال سوالیہ نشان ہے اسی طرح لولی پاپ دینے کا عمل بھی بدستور جاری ہے اور اب صوبے کے بعض سیاسی زعماء کے نعروں کی پھر گونج سنائی دے رہی ہے کہ اب صوبہ اس پراجیکٹ کو مکمل کرے گا
لیکن اس کے آثار تاحال فائلوں تک ہی محدود ہیں دوسری جانب ایبٹ آباد سپورٹس کونسل کے ترجمان نے حکومتی ذمہ داران، اور وزیر اعلی محمود خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے فوری طور پر ایبٹ آباد ہاکی سٹیڈیم کی حالت زار کو بہتر بنانے سمیت نئی بلیو ٹرف بچھانے
نئے خوبصورت شیڈز اور پویلین بنانے اور دیگر کاموں کی سر انجام دہی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھیل اور کھلاڑی کو پنپنے کا موقع دیں اگرایسا نہ ہوا تو ایبٹ آباد کی سپورٹس تنظیمیں بھرپور اجتجاج پر مجبور ہوں گئی ۔