مسرت اللہ جان
صحافی اپنے آپ کو ہر احتساب سے مبرا سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں ایسے نوٹنکی بھی شامل ہیں جن کی اوقات ڈھول بجانے والے کی ہوتی ہیں . جہاں سے پیسہ ملتا ہے وہاں پر ڈھول بجانے لگتے ہیں لیکن ان ڈھول بجانے والوں کی بڑی ڈیمانڈ ہے یہی وجہ ہے کہ سرکار کے کچھ ملازمین جو ڈھول بجانے والوں کیساتھ پیسے جمع کرنے والوں کا کردار ادا کرتے ہیں اپنی سرکاری نوکری کیساتھ ساتھ ڈھول بجانے کیلئے صحافی بن جاتے ہیں.صحافت کے شعبے میں سرکار کی مدح سرائی کرنے والے یہی نوٹنکی اور پیسے جمع کرنے والے جو وقت کیساتھ ترقی کرکے اینکر / سٹیج پرمائیک ہاتھ میں لیکر اپنی اوقات ہر جگہ دکھاتے ہیں .
کھیلوں کی دنیا میں کھلواڑ بھی انہی نوٹنکیوں نے شروع کی ہوئی ہیں – جس طرح سیاست کے میدان میں کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی بقاء کیلئے زرداری اور نواز شریف کا ایک دوسرے کو چور کہنا اور پھر گلے لگانا ضروری ہے کیونکہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل بھی چلنا ہے اسی طرح کھیلوں کی دنیا میں بھی آنکھیں بند کرنا ، منہ بند رکھنا اور کان کو بند رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر سچ بول دیا تو پھر … اس معاشرے میں سچ کی کوئی حیثیت نہیں..کیونکہ اندھوں کے ملک کا راجہ کانا ہی ہوتا ہے…
کھیلوں کی شعبے کی نگرانی کرنے والے وزیر ، وزارت بتا سکتی ہیں کہ گذشتہ پچیس سالوں میں کتنے عام افراد / صحافی بیرون ملک کھیلوں کے کوریج کے نام پر فرار ہوگئے ہیں انہیں فرار کروانے والوں میں کن کن کا ہاتھ ہے اور کون انسانی سمگلنگ کے اس مکروہ کاروبار میں شامل ہیںایسے ایسوسی ایشنز بھی کھیلوں کی ہیں جو گرانٹس تو حکومت سے لیتے ہیں مگر ان کی سرگرمیاں کاغذوں کی دنیا تک محدود ہوتی ہیں مگرانسانی سمگلنگ کے اس کاروبار میں ان کا بڑا کام ہے . ایسے بڑے بڑے نام جنہیں لوگ اپنے شعبوں کے کھلاڑی سمجھ کر دیوتا کی طرح پوجتے ہیں مگروہ اور انکا کردار پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک اوقات رکھتے ہیں .
عام آدمی اگر کسی یورپی ملک جانے کیلئے ٹرائی کرتا ہے تو اسے تیس سے پچاس لاکھ روپے دکھانے اور لگانے ہوتے ہیں مگر یہ کام کھیلوں کے شعبے میں پانچ سے دس لاکھ میں ہوسکتا ہے. کھیلوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا خرچہ پانی / ایک وقت کا ڈنر / مان لیں تو بیسویں نمبر پر آنیوالا کھلاڑی بھی ٹاپ فائیو میں آکر چلا جاتا ہے اس میں کچھ حصہ نام نہاد افراد کو بھی دینا پڑتا ہے -اس طرح عام سا بندہ جو اگر خرچہ مان لے تو وہ بھی صحافی بن کر کوریج کے نام پر بیرون ملک جاسکتا ہے.
اسی طرح کے ڈرامو ں اور رقم لیکر کتنے مختلف کھیلوں سے وابستہ تھرڈ کلاس کھلاڑی جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں بیرون ملک مقابلوں کے نام پر فرار ہوگئے ہیں اور اپنے آپ کو ٹاپ پوزیشن کہلوا کر اپنے لئے سیاسی پناہ مانگ لیتے ہیں . کتنے ایسے مرد و خواتین ہیں جو رقمیں دیکر کوچز بن گئے متعلقہ لوگوں نے انہیں پرموٹ کیا اور پھر کوچز بن کر یورپی ممالک میں بس گئے ہیں اس عمل میں صحافی بھی شامل ہیں جو طوائف کا کردا ر ادا کرتے ہوئے پیسے کی خاطر بہت کچھ کرنے کو تیار ہوتے ہیں . ان لوگوں کا ڈیٹا کسی کے پاس ہے . کسی نے اس معاملے کی چھان بین کی ہیں نیب سے لیکر ایف آئی اے ، انٹی کرپشن اور حکومتی وزارتیں اس معاملے میں خاموش ہیں اور اگر کہیں کوئی سرپھرا اس معاملے میں بات کرنا چاہتا ہے تو پھر یہ کہا جاتا ہے کہ کھیلوں کی پروموشن کیلئے مثبت چیزوں کوسامنا لایا جائے. اور اس طرح کی خبریں شائع نہ کی جائے کیونکہ اس سے نام نہاد صحافیوں کے کرتوت اور متعلقہ ایسوسی ایشنز کے کرتوت سامنے آتے ہیں-
کیا کھیلوں کی کوئی ایسوسی ایشنز /فیڈریشن بہ بتا سکتی ہیں کہ گذشتہ بیس سالوں میں کتنے کھلاڑی ٹاپ پر آئے ہیں جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہو . اخبارات کی خبروں اور کٹنگ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو کتنے لوگ ہیں سوائے چند ناموں کے ، جبکہ دوسری طرف حال یہ ہے کہ صحافیوں سمیت کھیلوں کی ایسوسی ایشنز نہ صرف حکومت سے گرانٹس لیتی ہیں بلکہ سپانسرشپ کے نام پر مختلف اداروں سے لاکھوں روپے بٹور ے جاتے ہیں جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں.
کیا عمرا ن خان جو خود بھی سپورٹس کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ کھیلوں کے میدان میں ہونیوالے اس کھلواڑ سے باخبر ہیں یا وہ بھی صرف مثبت خبروں کے نام پر اس دھاندلی پر آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہیں…