مسرت اللہ جان
کھیلوں کا شعبہ واحد شعبہ ہے جس میںہر طرف سے ہر طرح کا کھیل جاری ہے ، خواہ وہ وفاق کی طرف سے ہو یا صوبوں کی طرف سے ، اٹھارھویں ترمیم کے بعد اس وزارت کھیل کا حال ہے کہ فنڈز تو ہیں لیکن خرچ کہاں ہورہے ہیں اس کا اندازہ کسی کو نہیں ، ہاں لگانے والے جو اس کھیل کے اندر ہیں انہیں پتہ ہے کہ یہ کہاں پر خرچ ہورہے ہیں -صوبوں کو اختیارات دینے کے بعد کھیلوں کی مختلف فیڈریشنزاب اس تنائو کا شکار ہیں کہ آخر کارانہیں فنڈز کہاں سے ملے گا کیونکہ وفاقی حکومت کھیلوں کی تنظیموں کو یہ کہہ کر جان چھڑا رہی ہیں کہ اب ہمیں فنڈز نہیں مل رہے ہیں اور سارے فنڈز صوبوں کے حوالے کردئیے گئے ہیں اس لئے ہمیں تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہم کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں.اس جواب کے بعد کھیلوں کی بیشتر تنظیمیں کھیلوں کی قومی سطح کے مقابلے منعقد کروانے سے قاصر ہیں.
دوسری طرف وفاق کے زیر انتظام کھیلوں کی وزارت کا یہ حال ہے کہ سال 2017 تک کھیلوں کے مختلف فیڈریشنز سے سالانہ گرانٹس کے حوالے سے پروپوزل اور کیلنڈرز مانگا کرتے تھے کہ ہم نے حکومت سے رقم لینی ہے. حکومت پاکستان وزارت کھیل کو رقم کو دیتی رہی لیکن اس کا استعمال کہاں پر ہورہا ہے کسی کو اندازہ ہی نہیں ، تبدیلی کے دعویدار اور کھلاڑی کی حکومت نے اتنی تبدیلی کردی ہے کہ کوئی آڈٹ دینے کو تیار نہیں. وفاق کے زیر انتظام کھیلوں کی وزارت کے چاروں صوبوں میں سنٹرز ہیں جہاں پر کھیلوں کی سہولیات کیلئے کورٹس موجود ہیں ، کوچز موجود ہیں ، ہاسٹل موجود ہے ہاسٹل میں بیرے تک عہدے تک موجود ہیں لیکن کام کیا ہورہا ہے جب وفاق کے زیر انتظام سنٹر میں ملازمین /کھیلوںیا کوئی دوسرا مسئلہ پیش آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ سب کچھ اوپر یعنی وفاق کی طرف سے ہے ہم کچھ کر نہیں سکتے.ان کی یہ دلیل ایک طرح سے ٹھیک بھی ہوسکتی ہے لیکن جب ادارے کے سربراہ ایڈہاک / پسند ناپسندکی بنیادوں پر آئے تو پھر ایسی ہی صورتحال سامنے آتی ہیں.
ایک طرف وفاقی وزارت کھیل کھیلوں کی فیڈریشنز کو یہ کہہ کر جان چھڑا رہی ہیں کہ ہمارے پا س فنڈز نہیں اس لئے اپنے صوبوں سے کھیلوں کے فروغ کیلئے رقم لیں لیکن دوسری طرف چاروں صوبوں میں واقع سنٹرز پرلاکھوں روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں ، مینٹیننس کی مد میں حکومتی خزانے کی مد سے نکل رہی ہیں اگر وفاقی وزارت کھیل فیڈریشنز کوکھیلوں کے فروغ کیلئے رقم نہیں دے سکتی تو پھر ان سنٹرز کو وفاق کے زیر انتظام کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ان سنٹرز کو صوبوں کے حوالے کیا جائے تو پھر اس سے جہاں کھیلوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا بلکہ اس سے مختلف کھیلوں کی جگہیں جو مقابلوں کیلئے استعمال ہوتی ہیں ان سے اضافی رقم بھی پیدا ہوگی جو کھیلوں کے فروغ کیلئے استعمال ہوسکتی ہیں-اسی طرح اضافی ملازمین جو سرکار پر بوجھ ہیں جن کے کام تو نظر نہیں آتے لیکن انہیں بھاری مشاہرہ ہر ماہ تنخواہوں کی مد میں دیا جاتا ہے ان سے جان چھڑائی جاسکتی ہیں – لیکن اس معاملے میں بھی وفاقی وزارت کھیل دوہری پالیسی اپنا رہی ہیں ، کھیلوں کی وفاق کی سطح پر وزارت موجود ہیں ان کے وزیر موجود ہیں ، ان کے دفاتر موجود ہیں ، انکے کروڑوں کے اخراجات ہر ماہ ہورہے ہیں اور یہ سب کچھ کھیلوں کے فروغ کے نام پر ہورہا ہے لیکن کھیلوں کے مقابلے منعقد کروانے کیلئے نہیں یہ سمجھ میں نہ آنیوالی بات ہے.
کھیلوں کیلئے فنڈز نہ ملنے پر وفاق کی سطح پر کام کرنے والی فیڈریشنز اب صوبوں کی طرف آرہی ہیں کہ انہیں فنڈز ملے تاہم وفاقی سطح پر ملنے والے گرانٹس صوبوں کے پاس نہیں .اس لئے کھیلوں کے مقابلے منعقد نہیں ہورہے اور قومی سطح کے کھلاڑی مختلف کھیلوں میں نہیں آرہے چند مخصوص کھیل ہیں جن کے کھلاڑی نمایاں ہیں اوروفاقی وزیر جو کہ خاتون ہیں کا موقف ہے کہ وہ رقم صرف ان فیڈریشنز کو دینگی جن کی کارکردگی اچھی ہو .یہ ایک اچھی کاوش ہے کہ جو کھیل یا کھلاڑی قومی ، بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں نمایاں ہو انہیں فنڈز دیاجائے.لیکن اس میں بھی پسند نا پسند کا عمل نہیں ہونا چاہئیے ، ایک لائحہ عمل مرتب کیا جائے کہ جن فیڈریشنز کی کارکردگی اچھی ہو خواہ قومی سطح پر ہو یا بین الاقوامی یا اولمپکس مقابلوں میں انہیں زیادہ فنڈز دیا جائیگا جبکہ کم کارکردگی یا کارکردگی نہ دکھانے والوں کوکم ملے گا اور جیسے جیسے ان کی کارکردگی میں بہتری آئیگی انہیں فنڈز میں اضافہ ملے گا اس سے دوسری فیڈریشنز جن کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہیں وہ بھی اپنی کارکردگی بہتر کرینگی .
پاکستان میں کھیلوں کیساتھ بدقسمتی یہی ہے کہ پرائیویٹ اداروں کی طرف سے سپانسرشپ نہیں ، اس میں نہ صرف حکومتی اداروں کی نااہلی ہے بلکہ فیڈریشنز میں سالہا سال سے عہدوں پر فائز افراد کی بھی نااہلی ہے کہ وہ اپنے کھیلوں کیلئے پرائیویٹ سپانسرشپ پیدا نہیں کرسکتے ، حکومت اگر کھیلوں کی سپانسرشپ کرنے والے اداروں کو ٹیکس کی مد میں چھوٹ دے تو اس سے پرائیویٹ ادارے ٹیکس کی چھوٹ کی خاطر کھیلوں کے فروغ کیلئے رقم مختص کرینگی جس سے مقابلے منعقد ہونگے اور نئے کھلاڑی سامنے آئینگے تو دوسری طرف فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کو بھی اپنے کام پر توجہ دینا چاہئیے کہ وہ صرف سرکاری فنڈز کے بجائے پرائیویٹ فنڈز کی طرف بھی توجہ دیں.اس معاملے میں زیادہ تر کردار کھیلوں کی وفاقی و صوبائی وزارت کو ہی کرنا ہوگا کہ وہ کھیلوں کے مختلف فیڈریشنز / ایسوسی ایشنز سے سالانہ ایونٹ کا کیلنڈر طلب کریںجس میں متعلقہ فیڈریشن کے افراد یہ بھی دکھا دیں کہ دس مقابلے اگر سرکار کے فنڈنگ سے ہورہے ہیں تو آٹھ مقابلے پرائیویٹ اداروں کے فنڈز سے بھی منعقد کروائے جائینگے اور اگر کوئی فیڈریشن ایسوسی ایشن ایسا نہیں کرے گا تو پھر انہیں فنڈز بھی اس طرح نہیں ملے گا . اس اقدام سے جہاں نئے کھلاڑیوںٹیلنٹ ہنٹ کا موقع ملے گا وہیں پر کھیلوں کا فروغ بھی ہوسکے گا.