مسرت اللہ جان
کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرنے والے وزارت کی کھیلوں کے حوالے سے پالیسی کی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ جن کی وجہ سے کھیلوں کا رجحان بڑھ سکتاہے یا سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے انہیں ملازمت نہیں مل رہی جبکہ جنہیں نوکریاں مختلف کھیلوں کے فروغ کیلئے ملی ہیں وہ اپنی نوکریاں کرنے میںدلچسپی نہیں لے رہے.اور یہ سلسلہ نہ صرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ہیں بلکہ یہ وفاق کی سطح پر کام کرنے والے پاکستان سپورٹس بورڈ کا بھی یہی حال ہے حالانکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعدوفاق کا کھیلوں کی وزارت سے کوئی کام ہی نہیں رہا لیکن اللہ بخشے کھلاڑی کی انوکھی پالیسی کو ، جن کے آنے کے بعد بھی سپورٹس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی …
ہاں اتنی سی تبدیلی آئی ہے کہ کھانے اور کھلانے کے طریقے بدل گئے ، جس طرح کھلاڑی کے وزیراعظم بننے سے قبل سیکورٹی کے نام پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہوتی تھی اب انہوں نے سیکورٹی کے نام پر پچپن روپے فی کلومیٹر والے ہیلی کاپٹر میں پھرنا شروع کردیاجو تاحال ان کی نظر میں پچپن روپے فی کلومیٹر ہے لیکن عوام کو کتنے میں پڑ رہا ہے اس کا اندازہ آنیوالی حکومت ہی کریگی خیر چھوڑیں آتے ہیں سپورٹس پالیسی پر..
کسی بھی کھیل کے فروغ میں متعلقہ کوچ کا کردار اہم ہوتا ہے جس طرح استاد بچوں کا روحانی والد ہوتا ہے بس یہی مثال کوچ کی بھی ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ استاد نصابی سرگرمیوں کے بارے میں صحیح طریقے سے آگاہ کرنا والا ہو اسی طرح کھیلوں کے دائوپیچ صحیح سکھانے والا کوچ ہو تو پھر سیکھنے والا بچہ یا بچی بام عروج پر پہنچتا ہے لیکن سپورٹس میں یہ حال ہے کہ جنہوں نے کھیلوں کے میدان میں تعلیمی ڈگریاں لی وہ کلاس فور کے ملازمین ہیں اس میں بیشتر پاکستان سپورٹس بورڈ میں کام کررہے ہیں جبکہ اس کے برعکس صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کھیلوں کی کوچز کا یہ حال ہے کہ وہ ڈیلی ویج پر کام کررہے ہیں یعنی سرکار کی اپنی تنخواہ سے بھی کم تنخواہ انہیں ڈیلی ویجز ملازمین کو دی جارہی ہیں سترہ ہزار سرکار کی کم از کم تنخواہ ہیں جبکہ اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کام کرنے والے کوچز کو پندرہ ہزار روپے پر بھرتی کیا گیا ہے اور یہ تنخواہیں بھی انہیں دو ماہ بعد ملتی ہیں کیونکہ کھیلوں کی وزارت کی جانب سے ایسے ملازمین کی فہرستیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھجوائی جاتی ہیں جو نوکری تو نہیں کرتے لیکن .. سرکار کے گڈ بک میں ہوتے ہیں اس لئے انہیں تنخواہیں غریب عوام کے خون پسینے سے کمائی ہوئی ٹیکسوں کی رقم سے ادا کرنی پڑتی ہیں. بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ پڑوسی ملک سے تعلق رکھنے والے "افغان مہاجر” بھی کوچ کے طور پر کام کررہے ہیں.
یہی حال اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بعض کوچز کا بھی ہے جنہیں بھرتی تو کوچ کے عہدے پر کیا گیا مگر وہ نہ کام کے نہ کاج کے ، کیونکہ انہیں کھیلوں ، کھیلوں کے میدان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ..ہاں ان کی جگہ پر کوئی اور ڈیوٹی کررہا ہے کیونکہ یہ لوگ گڈ بک میں بھی ہیں اس لئے "ٹھیکوں” میں بھی ان کا عمل دخل ہے.اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو پھر جا کر گذشتہ دس سالوں کا ریکارڈ چیک کریں کہ کونسا کنٹریکٹر کھیلوں کی مختلف چیزوں کی سپلائی کررہا ہے اور کب سے کررہا ہے .کیونکہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت تو ڈائریکٹریٹ میں موجود افسران معلومات دینے سے انکاری ہیں کیونکہ اس سے بہت کچھ ظاہر ہوتا ہے.بات ہورہی تھی کوچز کی .جن کی پکی نوکری ہے وہ ٹھیکوں میں ملوث ہیں ، اور جو خواری کررہے ہیں انہیں ڈیلی ویج میں رکھا گیا ہے اب کوئی پوچھے کہ یہ کونسی پالیسی ہے کہ جن لوگوں نے کھیلوں کیلئے اپنی طرف سے کوششیں کی کیونکہ کوئی ڈائریکٹ تو کوچ نہیں بنتا ، قومی اور بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں پوزیشن لینے کے بعد کوچ کی حیثیت سے لیا جاتا ہے لیکن .. یہاں پر بھی من پسندوں کیلئے ڈنڈی ماری جاتی ہیں-
یہ سپورٹس کی عجیب پالیسی ہے کہ جن کے سر پر کھیل کے میدان چلتے ہیں ، ڈیپارٹمنٹ چلتا ہے ان کی کوئی اوقات نہیں البتہ افسران کے مزے ہیں.جو سالہا سال سے ایک ہی جگہ پر بیٹھ تنخواہیں لے رہے ہیں. دوسری طرف صوبائی وزیر اعلی کی اضافی وزارت کے اس ڈیپاٹمنٹ میں پالیسی بھی انوکھی ہی ہے کہ محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کو ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کے طور پر تعینات کیا ہے جس کی وجہ سے بعض اضلاع میں کھیلوں کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ دوسری طرف پشاور ہائیکورٹ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی کی جارہی ہیں – ان اضلاع میں شانگلہ ، مردان ، ٹانک ، دیر اپر ، دیر لوئر ، کوہستان ، چترال ، بنوں ، بٹگرام اور ایبٹ آباد سمیت ڈسٹرکٹ کوہی پالس میں بھی سپورٹس پالیسی سے بے خبر ڈسٹرکٹ آفسران تعینات ہیں.ان میں بعض افسران محکمہ تعلیم سے ہیں جو کہ فریکل ٹریننگ سے وابستہ تھے جبکہ بعض ڈرائنگ ماسٹر اور بعض سبجیکٹ سپیشلسٹ بھی بطور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کے کام کررہے ہیں اسی طرح پی ایس ٹی کے عہدے پر کام کرنے والے افراد بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں اہم عہدوں پر تعینات ہیں جن کا سپورٹس کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی یہ افراد کھیلوں کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہیں.
کھیلوں کی سرگرمیوں کی ضلع کی سطح پر مانیٹرنگ کرنے والے ان افسران کو مینجمنٹ کیڈر کے حوالے سے تعیناتی پر پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد نے باقاعدہ احکامات بھی دئیے تھے تاہم اس پر عملدرآمد ابھی تک نہیں ہوسکا-محکمہ تعلیم سے کھیلوں کی جانب اساتذہ کو لانے کا سہرا مردان سے تعلق رکھنے والے وزیر نے شروع کیا تھا اور ان کے سابق دور میں ریجنل سپورٹس افسران کی بھرتی کیلئے بھی کاوشیں کی تھی تاہم ان کے وزارت سے علیحدگی کے بعد صوبائی وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان جن کے پاس کھیلوں کی وزارت کا اضافی چارج بھی ہیں بھی اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکی ہے.. ان حالات میں کھیلوں کے فروغ کے دعوے کرنا لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے.اوریہی پالیسی رہی تو انشا اللہ آنیوالے دس سالوں میں کھیلوں میں بہتر ی کی امید تو نہیں رکھی جاسکتی ..