معیشت کے بعد کھیل میں تباہی

تحریر ۔ خلیل احمد نینی تال والا
تبدیلی سرکار نے ملکی معیشت کا تو بیڑا غرق کر ہی دیا ہے، کھیل کے شعبے میں بھی ہماری کارکردگی تبدیلی سرکار کے سونامی کی زد میں ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم جو کبھی دنیا میں اپنا مقام رکھتی تھی۔تمام اعزازات ہمارے پاس تھے اب ورلڈ رینکنگ میں حکومتی عدم دلچسپی،فنڈز کی کمی، کرپشن، سیاست اور گراس روٹ تک ہاکی کا کھیل ناپید ہونے کے باعث سترہویں نمبر پر ہے۔ اب ہم نے قومی کھیل کے بعد کرکٹ کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا ہواہے جس کے باعث ہم گزشتہ چند ماہ میں دو ٹی 20سیریز اور ایک ٹیسٹ سیریز بری طرح ہار چکے ہیں،ٹی 20میں ہم ورلڈ رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہونے کے باوجود سری لنکا جیسی بی ٹیم کے کھلاڑیوں سے ہوم سیریز تین صفر سے ہار گئے۔ اس کے بعد آسٹریلیا میں بھی 2صفر سے شکست کھائی، ٹیسٹ میچوں کو بھی ہم نے تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا، آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف نوجوان فاسٹ باؤلرز کو کہنہ مشق بنا کر ملکی کرکٹ کی رسوائی کا سامان مہیا کیا اور مسلسل پانچویں مرتبہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز وائٹ واش کا اعزاز حاصل کیا۔ حکومت نے جس طرح اپنی ناقص پالیسیوں اور وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج سے ملکی اداروں کا بیڑ ا غرق کیا ہے وہی حال انہوں نے قومی کھیلوں خصوصاًہاکی اور کرکٹ کا کیا۔ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرکے سینکڑوں کرکٹرز کو بے روزگار کردیا، بیچارے کرکٹرزاب مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالنے پر مجبور ہیں، مصباح الحق کو ملکی کرکٹ کی 3اہم پوسٹوں پر لگا کر ان کے ساتھ اور ملکی کرکٹ کے ساتھ زیادتی کی،کوئی بھی انسان اپنی استعداد سے بڑھ کر کام نہیں کرسکتا انہیں صرف ایک عہدہ تفویض کیا جانا چاہئے تھا۔ واضح رہے کہ دورہ نیوزی لینڈ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی مختصر اور طویل فارمیٹ کی کرکٹ میں کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ ٹی 20سیریز کے ابتدائی 2میچز ہارے اور تیسرے میچ میں جیت حاصل ہوئی اور یوں سیریز 1-2 سے نیوزی لینڈ کے نام رہی۔ بعد ازاں ٹیسٹ سیریز میں بھی نیوزی لینڈ نے وائٹ واش کیا۔ آئی سی سی کی جانب سے جاری رینکنگ کے مطابق پاکستان کو لگاتار 2 ٹیسٹ میچز ہرانے کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیسٹ رینکنگ میں بہتری آئی ہے اور یہ آسٹریلیا کو پیچھے دھکیلتے ہوئے پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ نیوزی لینڈ کے ریٹنگ پوائنٹس کی تعداد 118ہوگئی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جانے والی آسٹریلیا کے ریٹنگ پوائنٹس 116ہیں۔ سیریز میں کلین سویپ ہونے کے باوجود پاکستان ٹیم کی رینکنگ میں کوئی فرق نہیں آیا اور یہ 82ریٹنگ پوائنٹس کے ساتھ بدستور ساتویں نمبر پر موجود ہے۔ 1952سے لے کر اب تک اتنی کمزور بیٹنگ اور باٶلنگ دیکھی اور نہ ایسی ٹیم دیکھی جس میں کوئی اسٹار ہی نہ ہو۔آپ ڈھائی برس پہلے کی ٹیم دیکھ لیں وہ کہاں کھڑی تھی، اس ٹیم کا کپتان سرفراز احمد تھا، وہاں سے گرتے گرتے کپتانی اظہر علی اور پھر بابر اعظم کے پاس آتی ہے اور اب وکٹ کیپر محمد رضوان کے پاس ہے، کتنا اور گرائیں گے؟ اس وقت ٹیم کا جو کوچ تھا وہ دنیا کا ایک نامور کوچ مکی آرتھر تھا، وہاں سے آپ مصباح الحق کے پاس گرتے ہیں جنہوں نے ایک دن کوچنگ نہیں کی، بابر اعظم کے پاس کوئی تجربہ نہیں، چیف سلیکٹر انضمام الحق جیسے لیجنڈ تھے، فیصلہ کرنے اور بولنے والے شخص تھے، وہاں سے آپ گرتے ہیں پہلے مصباح الحق اور پھر گرتے ہیں محمد وسیم کے پاس، سب کے سامنے ہے، پتہ نہیں ابھی ہم نے اور کتنا گرنا ہے۔ وقار یونس کا 10 برسوں میں یہ مختلف عہدوں پر پانچواں دور ہے، وہ کبھی ہیڈ کوچ ہوتے ہیں تو کبھی باٶلنگ کوچ، دیکھا جائے تو انہیں پہلی مرتبہ بھی کسی نے کیوں کوچ لگایا کیونکہ کوچنگ ایک پروفیشن ہے اور کوچ بننے کیلئے کم عمری میں ہی نچلی سطح پر کام کرنا پڑتا ہے، کوچنگ کورسز کرنا پڑتے ہیں اور آپ منتخب کرتے ہیں کہ آپ کا مستقل پروفیشن کیا ہے۔نیز 64ایکسٹراز دینے والی ٹیم نے تاریخ میں سب سے زیادہ 17وائیڈز کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل کر لیا۔

واضح رہے کہ قومی ٹیم کے باؤلنگ کوچ وقار یونس باؤلرز کو دوسرے میچ کیلئے ’’بھرپور‘‘ تیاری کرانے کے بعد دوسرے ٹیسٹ سے قبل ہی رخصت پر پاکستان واپس آ گئے تھے۔ستم ظریفی تو دیکھیں کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود مصبا ح اور وقار یونس کو ہٹانے کے بجائے آئندہ سیریز کے لئے بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ اگر سیریز جیتنی ہے توسب سے پہلے مصباح اور وقار یونس کو فارغ کریں۔ ٹی 20 شرجیل خان، شعیب ملک اور کامران اکمل جبکہ ٹیسٹ کے لئے سرفراز احمد، اسد شفیق، خرم منظور، روحیل نذیراور کامران غلام کو شامل کریں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس شخص نے ایک ٹیسٹ میچ یا ڈومیسٹک کرکٹ تک نہیں کھیلی، اس کو کرکٹ بور ڈ کا سربراہ بنا دیا گیا۔

error: Content is protected !!