اختر علی خان
پاکستان کرکٹ بورڈ ایک جانب نوجوان کرکٹ ٹیلنٹ کو تلاش کرکے پاکستان سپر لیگ اور پھر قومی اور بین الاقوامی سطح پر روشنا کرا رہا ہے، اس کی زیادہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے شاہنواز دھانی بڑی مثال ہیں جبکہ یہی پاکستان کرکٹ بورڈ کچھ کرکٹرز کے مستقبل کو بھی دائو پر لگانے پر تلا ہوا ہے اسی پر ان سطور پر بات ہو گی فاسٹ بائولر محمد عامر کی، محمد عامر بلاشبہ فاسٹ بائولنگ کا ایک شاندار ٹیلنٹ ہے اور ابھی اس میں کافی کرکٹ باقی ہے جس کا فائدہ پاکستان کرکٹ ٹیم اٹھا سکتی ہے لیکن اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی پالیسی ابھی تک واضح نہیں ہوسکی ہے کہ محمد عامر کیساتھ ان کا یہ رویہ کیوں ہے اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں کیا اس میں سارا قصور کرکٹ بورڈ کا ہے یا فاسٹ بائولر محمد عامر بھی اس میں قصور وار ہے
پاکستان کرکٹ ٹیم نے ابوظہبی میں پاکستان سپر لیگ کے بقیہ میچوں کے مکمل ہونے کے بعد دو انتہائی اہم دورے کرنے ہیں اور دونوں دورے ٹیم کیلئے کسی بھی طرح دورہ جنوبی افریقہ اور دورہ زمبابوے کی طرح ترنوالہ ثابت نہیں ہونگے، سپر لیگ کے اختتام کے ساتھ ہی قومی کرکٹ ٹیم دورہ انگلینڈ پر جائے گی اور ایک تھکا دینے والی لیگ میں تقریباً وہ تمام کرکٹرز شامل ہیں جو دورہ انگلینڈ کیلئے منتخب ہوئے ہیں اب ان کی کارکردگی اور فٹنس دورہ انگلینڈ پر کیسی رہے گی اس کا اندازہ تو آنے والے وقت پر ہوگا اس دورے کے اختتام پر پاکستان کرکٹ ٹیم دورہ ویسٹ انڈیز پر روانہ ہو جائے گی جو ہمیشہ سے قومی کرکٹ ٹیم کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم نے جس بائولنگ لائن کا اعلان ان دو اہم دوروں کیلئے کیا ہے اچھا ہے تاہم تجربہ کی کمی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے، سلیکٹرز کی جانب سے ایک اچھا فیصلہ یہ کیا گیا کہ محمد عباس جو اس وقت کائونٹی کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کو ٹیم کا حصہ بنایا ہے، محمد عباس کو اب انگلش وکٹوں اور کنڈیشنز کا بہت اچھا تجربہ حاصل ہو چکا ہے ، بہرحال بات ہو رہی تھی محمد عامر کی محمد عامر نے گزشتہ سال اچانک کرکٹ کی دنیا میں اس وقت ہلچل مچا دی تھی جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں اور بورڈ انہیں اس فارمیٹ کیلئے اپنے پلان کا حصہ نہ بنائے
ان کی جانب سے یہ اعلان واضح طور پر ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور فاسٹ بائولنگ کوچ وقار یونس کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے سامنے آیا تھا اور اس حوالے سے کچھ دنوں تک محمد عامر کی جانب سے دھواں دھار بیانات بھی سامنے آتے رہے اور مصباح الحق وقار یونس کی جانب سے ان بیانات پر وضاحتیں بھی دی جاتی رہیں تاہم پھر یہ سلسلہ تھم گیا لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں ہے ایک اچھے اور کارآمد فاسٹ بائولر کا مستقبل اب بھی ضائع ہونے کے قریب ہے اور بہتر ہوگا کہ محمد عامر میں جو کرکٹ بیچی ہے اس سے پاکستان کرکٹ بورڈ فائدہ اٹھائے، اگر محمد عامر سے کوئی غلط ہو بھی گئی ہے تو کرکٹ بورڈ بڑے پن کا مظاہرہ کرے، مصباح الحق دل بڑا کریں ، وقار یونس درگزر کریں اور اس بائولر کو واپس اپنے پلان میں شامل کریں اس کا یقین جانیں قومی کرکٹ ٹیم کو فائدہ حاصل ہوگا، پاکستان کرکٹ بورڈ اگر محمد عامر کی سپاٹ فکسنگ جیسی بڑی خطا کو معاف کرکے انہیں دوبارہ کرکٹ میں لاسکتا ہے تو یہ بیان بازی کی غلطی کوئی اتنی بڑی نہیں کہ اسے معاف نہ کیا جاسکے، چند روز قبل کچھ ایسا سلسلہ چلا ہے جس سے کچھ امید ہوئی ہے کہ محمد عامر کو ٹیم میں واپس لانے کی ہلکی پھلکی کوشش شروع ہوئی ہے
اس کا آغاز پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سوئنگ آف سلطان وسیم اکرم نے کیا ہے، وسیم اکرم کا اس حوالے سے بڑا واضح موقف ہے کہ اس فاسٹ بائولر میں ابھی بہت اچھی کرکٹ باقی ہے جس کا فائدہ پاکستان کو ہوسکتا ہے، ایک انٹرویو میں وسیم اکرم نے کہا تھا کہ میں محمد عامر کو اچھی طرح جانتا ہوں اور گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران میں میری اس سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں اور اس دوران محمد عامر میں پاکستان کرکٹ کے حوالے سے ایک جنون دیکھا ہے محمد عامر کے مسائل پر بھی میری ان سے بات ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے کرکٹر کا قومی ٹیم میں آنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شرمناک ، وسیم اکرم جنہیں لوگ سوئنگ آف سلطان کے نام سے جانتے ہیں کے محمد عامر کے بارے میں خیالات ایک وزن رکھتے ہیں
لہٰذا پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔وسیم اکرم کی جانب سے محمد عامر کے حوالے سے مثبت بیان نے اتنا اثر دکھایا کہ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہہ دیا کہ وہ محمد عامر کیساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنا چاہتے ہیں یہ بات ثبوت ہے کہ بابر اعظم ان جیسے کرکٹر کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ٹیم کو فائدہ پہنچانا چاہتے، ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی جانب سے محمد عامر کے بارے میں بیان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سی ای او محمد وسیم کے دل میں نرم گوشہ پیدا کیا اور ان کا کہنا تھا کہ محمد عامر ہمارا اثاثہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مسائل کو حل کرکے اس کی کرکٹ سے فائدہ اٹھایا جائے، یہ تمام باتیں مثبت ہیں اور امید ہے کہ انہیں مثبت باتوں کو لیکر چلنے سے محمد عامر کا مستقبل بچ جائے گا اور جتنی بھی کرکٹ اب ان میں باقی بچ گئی ہے اس سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ملے گا امید کرتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ، مصباح الحق اور فاسٹ بائولنگ کوچ وقار یونس محمد عامر کو ٹیم میں واپس لانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔