پشاورانٹر بورڈ کے مقابلوں میں صنفی تفاوت اور بدانتظامی ایک روایتی سلسلہ

 

پشاورانٹر بورڈ کے مقابلوں میں صنفی تفاوت اور بدانتظامی ایک روایتی سلسلہ

مسرت اللہ جان

پشاور بورڈ کے زیر انتظام ہر سال اکتوبر اور نومبر میں کھیلوں کے مختلف مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں۔جس میں مختلف بورڈز سے وابستہ طلباؤ طالبات کی ٹیمیں شامل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے لیکن اس میں ایک روایت جو اب مستقل حیثیت اختیار کرتی جارہی ہیں اس صنفی تفاوت اور بدانتظامی کے مسائل ہیں، جس پر تاحال کسی نے بھی توجہ نہیں دی.

ہر سال ملک کے مختلف تعلیمی بورڈز کیساتھ منعقدہ مقابلوں میں پشاور بورڈ کی ٹیمیں بھی حصہ لینے پہنچتی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر پشاور انٹر بورڈ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی پاس خاتون سپورٹس ڈائریکٹر نہیں، اور اس کی تعیناتی کیلئے بھی کسی نے کاوش نہیں کی اسی بناء پر انٹر بورڈ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کی انتظامیہ اپنے من پسند ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن کو اپنی فیمیل ٹیموں کیساتھ مختلف مقامات پربھیجتی ہیں.

انٹر بورڈ کے پشاور میں ہونیوالے مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں پیسوں کی بچت کی خاطر پروفیشنل امپائرز کے بجائے طلباء سے امپائر کے طور پر کام لیا جاتا ہے تاکہ انہیں کم پیسوں یا لنچ دیکر جان چھڑانی پڑے مزید برآں، میچ ریفریز کو متعلقہ گیمز کے بارے میں کافی معلومات کے بغیر مقرر کیا جاتا ہے۔اسی باعث متعدد کھیلوں کے مقابلے لڑائی جھگڑوں کے نذر ہو جاتے ہیں اور بعض فائنل سے قبل ہی ختم کردئیے جاتے ہیں تاکہ صورتحال سنگین نہ ہو.

سال 2022 میں انٹر بورڈ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن نے کالجز کی کھیلوں کے فہرست میں تقریباً بائیس گیمز کو شامل کیا۔جس میں بعض ایسے کھیل بھی شامل ہیں جو کسی بھی کالج میں نہیں کھیلے جاتے ان بائیس کھیلوں میں تائیکوانڈو، باڈی بلڈنگ، ویٹ لفٹنگ، اور تیراکی جیسے کھیل جو کہ کسی بھی مرد کالجوں میں نہیں کھیلے جاتے نہ ہی اس کے کھلاڑی موجود ہوتے ہیں تاہم جنرل ٹرافی کیلئے یہ چار کھیل لازمی کی فہرست میں شامل ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دفاتر میں کام کرنے والوں کو کھیل، کالجز اور طلباء کھیلوں سے متعلق کتنی آگاہی حاصل ہے

 

اسی طرح سال 2022 میں خواتین کالجز کیلئے جاری کھیلوں کی فہرست میں بارہ کھیلوں کو شامل کیا گیا ہے جس میں خواتین فٹ سال، نیٹ بال، ہینڈ بال اور کرکٹ کی ٹیمیں شامل ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ ٹیمیں کسی بھی گرلز کالج میں نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کھیلوں کے کوئی مستقل خواتین کھلاڑی ہوتی ہیں. ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن اور اتھلیٹکس کی کھلاڑیوں کو کبھی ایک کھیل اور کبھی دوسرے کھیل میں ایڈجسٹ کرکے کام گرلز کالجز کی سطح پر چلایا جاتا ہے

 

جس میں سب سے بڑی نااہلی ان کالجز کی ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشنز کی ہوتی ہیں یہ الگ بات کہ ان میں بعض خواتین ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن کھیلوں کے شعبے میں نمایاں طورپر کام کر چکی ہوتی ہیں لیکن بطور سپورٹس ڈائریکٹر انتہائی نالائق ہوتی ہیں اور اپنے کالجز میں فیمیل کھلاڑی نہیں بنا سکتی اور ایک کھیل کی خواتین کھلاڑیوں کو ہر جگہ پر ایڈجسٹ کرکے کام چلانا جانتی ہیں اور یہ سلسلہ خیبر پختونخواہ کے کم و بیش تمام تر فیمیل کالجز میں عرصہ دراز سے جاری ہیں.

 

پشاور بورڈ کیساتھ کھیلوں سے وابستہ افراد کا مطالبہ ہے کہ سال 2023 میں اگلے دو تین ماہ میں شروع ہونیوالے انٹر بورڈ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے زیرانتظام کھیلوں کے مقابلوں کے آغاز سے قبل ہی ان کے تحفظات کو دور کیا جائے اور وہ اس سلسلے میں گورنر خیبر پختونخوا اور انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری بورڈ کے چیئرمین سے ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

 

کالجز میں کھیلوں سے وابستہ افراد کے سفارشات کے مطابق پرائیویٹ کالجزکے مابین کھیلوں کے الگ الگ مقابلے کرائے جائیں تاکہ سرکاری اور پرائیویٹ دونوں اداروں کے کھلاڑیوں کی شناخت ہو سکے۔کیونکہ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ سرکاری کالجز پرائیویٹ کالجوں کے طلباء کو مقابلوں میں شرکت کے لیے لاتے ہیں، جس سے فیئر پلے کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ میں منصفانہ اور جامع کھیلوں کے کلچر کے لیے ان مسائل کو درست کرنا اور کھیلوں میں صنفی مساوات کو فروغ دینا ضروری ہے۔

 

 

error: Content is protected !!