مضامین

جرمنی میں FISU گیمز 2025 | 88 کروڑ پچاس لاکھ | 3 کروڑ نتیجہ صفر

پاکستان کے کھیلوں کے نظام کی نااہلی، کرپشن اور شرمناک اسکینڈل کا پردہ فاش۔

جرمنی میں FISU گیمز 2025 | 88 کروڑ پچاس لاکھ | 3 کروڑ نتیجہ صفر

پاکستان کے کھیلوں کے نظام کی نااہلی، کرپشن اور شرمناک اسکینڈل کا پردہ فاش۔

تحریر: کھیل دوست۔شاھدالحق

FISU یونیورسٹی گیمز 2025 میں پاکستانی دستے کی شمولیت ایک سنہری موقع تھا کہ نوجوان کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرتے، مگر افسوس کہ یہ شرکت انتظامی بدنظمی، سفارشی بنیادوں پر تقرری، کرپشن اور ممکنہ انسانی اسمگلنگ جیسے سنگین الزامات کی نذر ہو گئی۔

ذرائع کے مطابق پاکستانی خواتین ٹیم کو 400×4 ریلے اور 5000 میٹر دوڑ کے دوران بے ضابطگیوں اور بنیادی اصولوں سے لاعلمی کے باعث گیمز سے ڈس کوالیفائی کر دیا گیا۔

حیران کن طور پر، ریلے ٹیم کی کھلاڑیوں کو دوڑ کی ترتیب اور رولز تک معلوم نہ تھے، جو کہ ناقابلِ معافی کوتاہی ہے۔ یونیورسٹی گیمز میں یہ بھی اطلاعات ھیں کہ کچھ اتھلیٹس کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا ھے جو سیف گارڈنگ اور حراسٹمنٹ کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔

یہ سب اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ منتخب آفیشلز نہ صرف غیر پیشہ ور تھے بلکہ انہیں کھیلوں کی بنیادی تربیت اور اخلاقیات کا ادراک بھی نہیں تھا۔ اگر کوئی حراسٹمنٹ اور زبردستی کا کیس سامنے آتا ھے

تو یہ ان کھیلوں کے لئے شرمناک ھو گا لہذا ذمہ داروں سے اپیل ھے کہ وہ حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ھوۓ رازداری سے تحقیق کریں اور اس دوران کسی کی عزت نفس مجروح کئے بغیر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جائے

مزید یہ کہ لاہور یونیورسٹی کے دو ایتھلیٹس گیمز کے بعد برلن میں لاپتہ ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ دعوے گردش کر رہے ہیں کہ یہ دونوں نوجوان جان بوجھ کر بیرون ملک ٹھہرنے کے لیے بھیجے گئے اور اس میں کچھ آفیشلز کی رضا مندی اور مالی لین دین بھی شامل ہے۔

جبکہ ممکنہ طور پر کچھ ذرائع مزید اتھلیٹس اور آفیشلز کے واپس نہ آنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ھیں۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ قومی وقار کے لیے ایک زبردست دھچکا ہے اور اس شرمناک واقعے کی مکمل انکوائری کی جانی چاہیے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دستے کے ساتھ کچھ اضافی افراد بھی بغیر اسپورٹس بورڈ کے این او سی کے سفر پر گئے، اور اعلیٰ سطحی افسران کی سرپرستی میں یہ ممکنہ طور پر انسانی اسمگلنگ کا کیس بنتا ہے۔ یہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ مستقبل میں پاکستان کے بین الاقوامی امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

مجموعی طور پر تقریباً 7000 یورو (تقریباً 2.26 ملین روپے) کی خطیر رقم کھلاڑیوں اور آفیشلز کی ڈیلی الاؤنسز کے نام پر خرچ کی گئی مگر اس کام کوئی حساب کتاب یا ریکارڈ موجود نہیں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ نہ کوئی قومی تربیتی کیمپ منعقد ہوا، نہ ہی کوئی ماہر کوچ یا ٹیکنیکل اسٹاف ساتھ لے جایا گیا۔ اس کے علاوہ، ان گیمز کے دوران منعقد ہونے والے تعلیمی پروگرامز — جیسے کوچنگ، گورننس، ایتھلیٹ ڈیولپمنٹ اور اسپورٹس جرنلزم — میں شرکت کا کوئی منصوبہ ہی موجود نہ تھا، جو کہ انتہائی نااہلی کا ثبوت ہے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے NOC کے بغیر کتنے افراد نے صرف ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی سفارش پر ویزا اپلائی کیا؟ جرمن سفارت خانے کو اس بارے میں تفصیلات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ قوم کو سچ سے آگاہ کیا جا سکے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 885 ملین روپے کا بجٹ جو ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام اور اسپورٹس انفراسٹرکچر کے لیے مختص کیا گیا تھا، اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آیا۔ اگر اس پر آزادانہ تحقیقات ہوں، تو ایک بڑے مالیاتی اسکینڈل کا انکشاف ہو سکتا ہے۔

اسپورٹس ایک ایسا میدان ہے جو قوم کی اخلاقی، جسمانی اور سماجی ترقی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی بدانتظامی کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اہل، تعلیم یافتہ اور فیلڈ کے ماہر افراد کو اسپورٹس گورننس میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔ بصورتِ دیگر ایسے واقعات پاکستان کو عالمی سطح پر شرمندہ کرتے رہیں گے۔

کالم نگار شاہد الحق ; سینئر اسپورٹس صحافی، فٹنس کوچ، یوٹیوبر و ہوسٹ – SPOFIT چینل کے بانی ھیں اور کھیلوں کے ذریعے امن اور ترقی کے علمبردار ھیں ۔ رابطہ: +923335161425 , ای میل: spofit@gmail.com

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!