کرکٹ

کھیل، سیاست اور دوہرے معیار — ایشین کپ 2025 کی تلخ یادیں

تحریر: کھیل دوست، شاہد الحق

کھیل، سیاست اور دوہرے معیار — ایشین کپ 2025 کی تلخ یادیں

تحریر: کھیل دوست، شاہد الحق

ایشیائی کرکٹ کپ 2025 ختم ہو گیا، مگر اپنی یادیں نہیں چھوڑ گیا۔ یہ یادیں خوشگوار نہیں بلکہ ان تلخ لمحات سے بھری ہیں جنہیں کھیلوں کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

آغاز ہی سے بھارت نے پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو کھیل کے میدان کے بجائے سیاست کے اکھاڑے میں ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھی بعض کھلاڑیوں نے کھیل کو سیاست کا رنگ دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ خاص طور پر حارث رؤف کا "چھ-صفر” والا اشارہ، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

اولمپک کی اصل روح اور امن کا پیغام ;
یہ سب دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کھیلوں کی بنیاد تو امن، بھائی چارے اور یکجہتی پر رکھی گئی تھی۔ یونان کے قدیم اولمپک میں دشمن ملکوں کے کھلاڑی بھی سفید جھنڈا اٹھائے، عوام کی خوشی اور خیرمقدمی کے ساتھ، اولمپیا پہنچتے تھے۔

مقصد صرف ایک تھا: امن اور دوستی۔
جدید اولمپک بھی اسی خواب پر 1896 میں شروع ہوئے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے 2014 میں کھیلوں کو دنیا میں امن اور ترقی کے فروغ کا سب سے مضبوط ذریعہ قرار دیا۔ مگر بدقسمتی سے آج کھیل نفرت اور تقسیم کے ہتھیار میں بدل گئے ہیں۔

بھارت کا کھیلوں میں جنگی جنون ;
بھارت کا رویہ اس بار حد سے زیادہ اوچھا تھا۔ میچ کے آغاز اور اختتام پر ہاتھ ملانے سے انکار، ایوارڈ تقریب میں رویہ، ٹرافی لینے سے بائیکاٹ، اور بھارتی وزیر اعظم کا اس میچ کو "آپریشن سندور 2” قرار دینا — یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ کھیلوں کے میدان کو جنگی جنون میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف کھیل کی روح کے خلاف ہے بلکہ خطے میں نفرت کی خلیج کو اور گہرا کرتا ہے۔

آئی سی سی اور آئی او سی کا دوہرا معیار ;
یہ بھی حقیقت ہے کہ کھیلوں کے عالمی ادارے خود اپنے معیار میں ناکام ہیں۔ آئی سی سی نے تو حارث رؤف پر فوری جرمانہ کر دیا، مگر بھارتی کھلاڑیوں اور بورڈ کی حرکتوں پر آنکھ بند رکھی۔

اسی طرح اولمپک کمیٹی کا دوہرا معیار بھی سب کے سامنے ہے۔ روس پر پابندیاں لگتی ہیں لیکن اسرائیل پر نہیں، حالانکہ اسرائیل کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ اسپین سمیت کئی ممالک نے پابندی کی اپیل کی مگر سب بے سود۔ سوال یہ ہے کہ کیا کھیلوں کا میدان واقعی طاقتور ملکوں کی مرضی کا غلام بن گیا ہے؟

پاکستان کے لیے لائحہ عمل ;
پاکستان کو اب صرف تماشائی بننے کے بجائے کھیلوں کی طاقت کو سمجھنا ہوگا۔ وزارتِ خارجہ اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کو مل کر سپورٹس ڈپلومیسی کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی بات رکھنی چاہیے۔ بھارت کے رویے پر احتجاج صرف بیانوں تک محدود نہ ہو بلکہ انڈین ناظم الامور کو ڈوزیئر دیا جائے اور غیر ملکی سفیروں کو کھلی بحث میں مدعو کیا جائے۔ اگر ہم نے اپنی آواز نہ اٹھائی تو ہماری سبکی کھیل کے ہر میدان میں ہوتی رہے گی۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب پاکستان اور بھارت نے مل کر کرکٹ ورلڈ کپ کا انعقاد کیا، تو کیسا شاندار ایونٹ دنیا کے سامنے آیا۔ میں اس ایونٹ میں معاون کا قلعدار ادا کر رہا تھا۔ یہ دونوں ملکوں میں ہم آہنگی تھی، اور کھیل واقعی کھیل لگ رہا تھا۔

2009 میں ابوظہبی کے "جنریشن فار پیس کیمپ” میں میں نے واہگہ-اٹاری بارڈر پر ڈریم پیس کورٹ کا آئیڈیا دیا تھا، جو بعد میں ڈریم پیس اولمپک ایرینا تک بڑھا۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جو کھیلوں کو نفرت کی بجائے محبت اور دوستی کا ذریعہ بنا سکتا تھا۔ بلکہ تجارت اور کلچرل ایکسچینج کے مقاصد کو بھی پورا کرتا۔ اگر یہ خواب پورا ہوتا تو یہ دنیا کا سب سے منفرد کھیلوں کا مرکز ہوتا جہاں سرحدیں نہیں بلکہ دل جڑتے۔

اپیل برائے امن و یکجہتی ;
میں دونوں ممالک کے کھیلوں کے ماہرین، کوچز اور لیجنڈز سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور کھیلوں کے ذریعے محبت، امن اور بھائی چارے کا پیغام عام کریں۔ دشمنی کو بڑھانے کے بجائے دوستی کے دروازے کھولیں۔ اور سب مل کر ڈریم پیس اولمپک ایرینا کے خیال کو حقیقت بنانے میں تعاون کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے خطے میں کشیدگی کم اور عوام میں اعتماد بڑھے گا۔

ایشیائی کپ 2025 نے یہ بتا دیا ہے کہ کھیل اگر سیاست کی نذر ہوں تو وہ نفرت کو بڑھاتے ہیں۔ پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کھیلوں کو صرف میدان تک محدود رکھنا چاہتا ہے یا انہیں اپنی خارجہ پالیسی کا مضبوط ستون بنا کر دنیا میں امن اور بھائی چارے کی پہچان بنانا چاہتا ہے۔ کھیل طاقت ہیں — سوال صرف یہ ہے کہ ہم انہیں کس طرف استعمال کرنا چاہتے ہیں؟

مصنف کے بارے میں ;
شاہد الحق — ایک سینئر صحافی، کھیلوں سے امن کے داعی اور ترقی و علمبردار۔ سابق قومی باسکٹ بال کھلاڑی، کئی قومی ٹیموں کے فٹنس کوچ، اسپورٹس رائٹر، ایونٹ مینجر اور کھیلوں کی دنیا میں امن کے فروغ کے لیے سرگرم۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!