تحریر: لندن سے اعجازوسیم باکھری
ذرا سوچئے۔۔۔ اگر بھارتی کپتان ہوتا تو یہ سب کچھ ہوتا۔
بین سٹوکس کے بیٹ پر لگ کر اوور تھرو کے چار رنزپر تماشہ کھڑا ہوتا
کپتان سٹیڈنگ امپائر کیساتھ بحث کرکے لیگ امپائر کو بھی بلا لیتا
فیلڈرز پچ پر گھیرا ڈال کر کھڑے ہوجاتے اور جھوٹی چہ مگوئیاں کرتے
بین سٹوکس کا باؤنڈری سے ٹکراکر کیچ پکڑنے پر آؤٹ، آؤٹ کا راگ الاپا جاتا
سپراوور بھی ٹائی ہوتا تو باؤنڈریز کی تعداد کم ہونے پر شکست قبول نہ کی جاتی
امپائروں کیساتھ جھگڑا کیا جاتا، شاید کوچ روی شاستری بھی بالکونی سے نیچ اترآتے
ٹیم مینجمنٹ کاسٹاف میچ ریفری اورتھرڈ امپائر کے کمرے میں گھس کر احتجاج کرتے
شائقین جذباتی ہوکر گراؤنڈ میں آجاتے،ممکن ہے اپنے کھلاڑیوں کو کاندھوں پر اٹھا لیتے
مگر نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے گزشتہ روز صبر، برداشت، سپورٹس مین شپ، اصول پر سر جھکا دینا اور ٹیکینکل طریقے سے کامیاب ہونے والے مخالف کپتان ایون مورگن کو گلے لگا کر جس طرح کھلے دل اور مسکراہٹ کیساتھ مبارک باد دی،وہ نہ صرف کھیل کی تاریخ میں امر ہوگئے بلکہ ہم جذباتی ایشین کو بھی سپورٹس مین شپ کا سبق دے گئے۔ ایک کہاوت ہے کہ صبر کرنے والوں کے ضمیر پر ناکامی کا بوجھ چھوکر بھی نہیں گزرتا اور بے صبرے پن پر ہر وقت شکست کا بوجھ رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں نیوزی لینڈ ٹرافی نہیں جیت سکا، اس بھی کوئی شک نہیں کہ ٹیکنیکل طریقے سے انگلینڈ کو فاتح قرار دیا گیا، یہ بھی درست ہے کہ نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کو 241رنز کا ہدف حاصل نہیں کرنا دیا، انگلینڈ کے مقابلے میں کئی درجے بہتر کرکٹ کھیلی، لیکن اینڈ آف دی ڈے کیویز نے شکست کو قبول بھی کیا اور انگلینڈ کو جیت پر مبارک بھی دی اور یہی سپورٹس مین شپ کا اصول ہے کہ قوانین کے اندر رہ کر جوبھی نتیجہ نکلے اسے قبول کیا جائے اور کین ولیمسن داد کے مستحق ہیں کہ جس طرح انہوں نے اسپرٹ آ ف د ی گیم کی روح کو برقرار رکھا۔