افق دھندلا سا گیا ہے۔ امید کی کوئی کرن نہیں پھوٹ رہی۔ انتظار ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حالانکہ پہلے بھی تو یہیں سے سورج طلوع ہوتا تھا۔ لیکن اب کوئی آس بھی نہیں۔ آخر ایسا کیا بگڑ گیا ہے؟
وکٹوں کے پیچھے کھڑے سرفراز کبھی خوب بولا کرتے تھے۔ اب کافی خاموش رہنے لگے ہیں۔ بارہا ان کا چہرہ سفید گلوز کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ وہ اب بھی بولر کو نصیحتیں کرتے ہیں۔ فیلڈرز پہ خفگی بھی دکھاتے ہیں۔ مگر لہجے کا وہ تیقن، جو آج سے تین ہفتے پہلے تک تھا، اب نہیں ہے۔
مکی آرتھر کیمرے سے کافی اپنایت دکھاتے تھے۔ کبھی حسن علی کو ایک چھکا لگنے پہ ہی ہیڈلائن پوز دے دیتے تھے، کبھی عرفان کی انجری پہ نالاں ہو کر، تو کبھی سٹریٹیجک ٹائم آوٹ میں سہیل خان کو جھاڑ کر۔ وہ بیان بھی بہت دیا کرتے تھے۔ مگر اب کی بار وہ بھی چپ ہیں۔
انضمام الحق نے جب سے سلیکشن کا چارج سنبھالا ہے، ہر سیریز کے دوران ایک آدھ بیان ایسا ضرور دیتے ہیں کہ قلب کو گرما دے۔ اس بار مگر ایسا کچھ سنائی نہیں دیا۔ صرف ایک خبر ملی کہ’ادھر ادھر کی کرکٹ پہ کنٹرول کرنا ہو گا`۔
نجانے کس سے مخاطب تھے وہ؟ اس بورڈ سے جو لیگز کے لئے این او سی جاری کرتا ہے؟ یا پلئیرز سے؟ یا شاید یہ بھی خود کلامی ہی تھی۔
اور تو اور، اس بار چئیرمین بورڈ بھی چپ ہیں۔
یہی ٹیم تھی، یہی کپتان تھا، یہی منیجمنٹ، اور چھ ماہ پہلے ہم فاتح عالم تھے۔ مسلسل نو ون ڈے فتوحات کی لڑی تھی۔ مستقبل روشن تھا اور حال تابناک۔