ڈھاکہ (سپورٹس لنک رپورٹ)بنگلہ دیشی کرکٹرز نے اپنے کرکٹ بورڈ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے کرکٹ کے معاملات میں بہتری تک مستقبل قریب میں کسی بھی کرکٹ سرگرمی میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ملک میں کرکٹ کے نظام اور بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے فرنچائز کے ماڈل کے سلسلے میں کھلاڑیوں اور بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے درمیان تنازع جاری ہے جہاں کھلاڑیوں کی اوسط آمدنی اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔کھلاڑیوں کے تحفظات میں اس وقت زیادہ اضافہ ہوا جب رواں ماہ کے آغاز میں شروع ہونے والے فرسٹ کلاس سیزن کے لیے کھلاڑیوں کے معاوضے میں اضافہ نہیں کیا گیا۔اس سلسلے میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش کے متعدد اسٹار کھلاڑیوں خصوصاً شکیب الحسن نے آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ کرکٹرز سے بہتر رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔شکیب کے اس بیان کو بنگلہ دیش کے تمام نامور کھلاڑیوں نے سراہا تھا البتہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا تھا۔بنگلہ دیشی کرکٹرز کے ہڑتال پر جانے اور مزید کرکٹ کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کا براہ راست اثر اس وقت جاری فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ پر پڑے گا جبکہ آئندہ ماہ شیڈول دورہ بھارت کے لیے ٹریننگ اور خود ٹور پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔پیر کو بنگلہ دیشی کرکٹرز نے ٹیم کے اسٹار کھلاڑیوں شکیب الحسن اور مشفیق الرحیم کی سربراہی میں ایک پریس کانفرنس کا اعلان کرتے ہوئے غیر معینہ مدت تک ہڑتال پر جانے کا اعلان کیا اور اپنے 11 مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی منظوری تک کرکٹ کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔
ڈھاکا کے نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کی گئی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شکیب الحسن نے کہا کہ انڈر 19 اور دیگر عمر کی ٹیموں کے علاوہ تمام طرح کی فرسٹ کلاس اور نیشنل ٹیمیں اس ہڑتال کا حصہ ہیں اور ان چیزوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو نظام الدین چوہدری نے کہا کہ جب تک یہ معاملہ رسمی طور پر بورڈ کو پیش نہیں جاتا، اس وقت تک بورڈ اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دے سکتا۔شکیب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں امید ہے کہ بورڈ ہمارے مطالبات کو منظور کرے گا اور ہم سے مذاکرات کرے گا، مطالبات پورے ہونے کے بعد ہم اپنی سروسز کا آغاز کر دیں گے۔بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں کے 11 مطالبات میں سرفہرست کرکٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن آف بنگلہ دیش کی قیادت سے استعفے کا مطالبہ ہے جہاں ان کا کہنا ہے کہ اس ایسوسی ایشن کے صدر اور نائب صدر دونوں ہی بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹرز ہیں اور کھلاڑی کمیٹی کے اگلے اجلاس میں ووٹنگ کے ذریعے ان دو اہم عہدوں کے لیے افراد کا انتخاب کریں گے۔ڈھاکا پریمیئر لیگ کو اس کے سابق طریقہ کار کے مطابق دوبارہ چلایا جائے جہاں کھلاڑیوں کو اپنی پسند کی ٹیم سے کھیلنے اور کلب سے اپنی تنخواہ پر مذاکرات کرنے کا اختیار تھا۔بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کو فرنچائز کے ماڈل پر واپس لایا جائے اور مقامی کھلاڑی کی بنیادی قیمت بھی غیرملکی کھلاڑی کے مساوی مقرر کی جائے۔جم، ٹریننگ، گراؤنڈز سمیت دیگر سہولیات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ میں استعمال ہونے والی گیند کے معیار اور ڈیلی الاؤنس کو بھی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔مطالبات میں کہا گیا کہ سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کی تعداد بڑھا کر 30 کی جائے اور جن کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ میں برقرار رکھا جائے
ان کو ترقی دی جائے۔کھلاڑیوں نے کہا کہ ملک میں دو ڈومیسٹک ٹورنامنٹ بالترتیب ون ڈے اور ٹی20 کے ہیں لہٰذا دو فارمیٹس کے لیے کم از کم ایک، ایک مزید اور مجموعی طور پر سالانہ دو اضافی ٹورنامنٹس متعارف کرائے جائیں۔اس سلسلے میں ڈومیسٹک کرکٹ میں باقاعدہ کیلنڈر متعارف کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔کھلاڑیوں نے ڈھاکا پریمیئر لیگ کی زیر التوا تنخواہیں اور معاوضے بھی جلد از جلد ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔آخری مطالبے میں کہا گیا کہ انٹرنیشنل ذمے داریوں سے فارغ ہونے کے بعد کھلاڑیوں کو دنیا بھر میں کم از کم دو فرنچائز کی لیگ کرکٹ کھیلنے کے لیے این او سی کا اجرا یقینی بنایا جائے۔شکیب الحسن نے واضح کیا کہ یہ مطالبات ویمنز کرکٹ کے لیے نہیں ہیں لیکن اگر وہ چاہیں تو ان مطالبات کا حصہ بن سکتی ہیں اور ہم انہیں اس سلسلے میں خوش آمدید کہیں گے۔یاد رہے کہ ڈھاکا کے روزنامہ ڈیلی اسٹار میں شائع بیان میں شکیب نے کہا تھا کہ انہیں بنگلہ دیش کرکٹ میں کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی بلکہ ہماری توجہ صرف ان سیریز پر ہوتی ہے جو چل رہی ہوتی ہیں لیکن اگر ورلڈ کپ کی بات ہو تو ہمیں کم از کم 6 سے 8 ماہ قبل منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔شکیب نے مزید کہا تھا کہ طویل المدتی منصوبہ بندی کے لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو تکنیکی بنیادوں پر بہت مہارت رکھتا ہو اور اس سلسلے میں انہوں نے انگلش کرکٹ بورڈ میں اینڈریو اسٹراس کی مثال رکھی۔مایہ ناز آل راؤنڈر نے کہا تھا کہ ملکی کرکٹ کے محافظوں کو یہاں بڑا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، ایسے افراد کی ضرورت ہے جو مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں اور اسی صورت میں چیزیں بہتر ہو سکتی ہیں۔