تحریر۔۔۔ اعجاز وسیم باکھری
میں برائن لارا کا ثانی بنتے بنتے شاید سپورٹس جرنلسٹ بن گیا یا شاید مجھے کرکٹ کھیلنے کے دنوں میں بھی کرکٹ میگزین پڑھنے ، تبصرے سننے اور دیگر کھیلوں کے بارے میں پڑھنا اس کا بہت لگاؤ ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ میں سپورٹس جرنلسٹ بن گیا۔۔ مگر پاکستان کرکٹ کو فالو کرنے اور خصوصا انگلینڈ کے بعد اگر کوئی تیسری ٹیم کے کھیل پر نظر رکھنے کا کیڑا ہے تو وہ آسٹریلوی ٹیم ہے۔۔ میں شاید ہر روز آسٹریلیا اور انگلینڈ کے اخبارات کے سپورٹس آرٹیکلز، تجزیے ، دلچسپ قسم کے پروفیشنل تبصرے دیکھتا اور پڑھتا ہوں کہ اندازہ ہوتا رہے کہ وہ کرکٹ جیسے کھیل کو مقبول رکھنے اور دلچسپ بنائے رکھنے کی کیا کچھ کرتے رہتے ہیں اور وہاں چل کیا رہا ہے۔۔۔۔۔ آج تو حد ہوگئی پاکستان کی شکست کے بعد ہمارے ہاں جو زبان استعمال کی جارہی ہے کوچ مصباح الحق کے بارے میں ۔۔۔۔ وہ بھی ایسے لوگ کررہے ہیں جو پاکستان میں کرکٹ کے بھاشن دینے میں خود کو آگے آگے سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ سابق کرکٹر ہوں یا میرے ورگے گئے گزرے تبصرہ نگار۔۔۔۔۔ سب مصباح بچارے کو لتاڑ رہے ہیں مگر میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ نہ تو کھلاڑیوں کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی یہ لوگ پورا میچ آرام سے ایک کرکٹ فین کی طرح دیکھتے ہو نگے، اگر کرکٹ میچز کو غور سے دیکھا جائے اور کرکٹ فین کی طرح اپنی ٹیم کا موازنہ دنیا کی دیگر ٹیموں سے بندہ کرتا رہے اور نظر بھی رکھے تو وہ منفی باتیں نہیں کریگا۔۔ سپورٹس ٹیموں کو فالو کرنے والے اور سپورٹس تجزیہ کرنے والے ، لکھنے اور بولنے والے افراد پر تبقید نہیں کررہے ہوتے، مگر یہاں سالا ذاتی عناد، پسند نہ پسند بھی کرکٹ تبصرہ کیا جاتا ہے۔
مجھ پر الزام لگتا ہے کہ میں سرفراز کے ساتھ پرسنل تھا مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ میں اس کا موازنہ دنیا کے دیگر کپتانوں اور ٹیم لیڈرز میں کرتا تھا تو اس کی ذاتی کارکردگی آڑے آجاتی تھی اور شاید اس کو اس لیے ڈراپ بھی کردیا گیا۔۔۔ مگر ایک کرکٹ فین کے ہونے کے ناطے مجھے مصباح کچھ ماہ تک مضبوط ترین ہیڈ کوچ دکھائی دیتا ہے۔۔ اس کی وجہ آگے چل کر بتاتا ہوں۔ مگر ادھر تو طوفان کھڑا ہوا ہے۔
یار دوست تو یہاں تک کررہے ہیں کہ دیکھا، ہم نے مصباح کو آدھا اکھاڑ پھینکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے وہ اپنی جگہ سے ذرا بھی ہلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ۔۔ کیونکہ میرا ایجنڈا نہیں ہے، میں کرکٹ فین ہونے کے ناطے اسے کامیاب کوچ کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔
میں سپورٹس جرنلزم سے ہٹ کر جب اپنے دوستوں کیساتھ بھی کرکٹ پر بات کرتا ہوں یا ہم لوگ بحث کرتے ہیں تو ہم لوگ پاکستانی ٹیلنٹ کو ڈیفینڈ کررہے ہوتے ہیں۔
حالانکہ جیسا بے کار، ناکارہ، تباہ کن ، بد دیانت، سسٹم ہمارا ہے شاید کسی اور ورلڈ چیمپئن ملک کا ہو، لیکن اس کے باوجود ہم لوگوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اور دنیا کی باقی ٹیموں پر نظر رکھنے کا کیڑا اتنا ہے کہ اب بھی کھیلنے نکل جاتے ہیں۔ اور کرکٹ پر بہت بات کرتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا نظام آسٹریلیا یا انگلینڈ جیسا ہے ؟ نہیں ہے یہ نظام ان ممالک جیسا۔۔ یہاں صرف اور کرکٹ کے مخلص کرکٹ کھیلنے والے لوگ ہیں، گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی پر میچ دیکھنے اور پسند کرنے والے ہی اس کرکٹ کے کھیل کے ساتھ جڑے ہیں، اس لیے نئے لڑکے بھی خود بخود سامنے آ جاتے ہیں، کچھ آگے نکل جاتے ہیں کچھ رہ جاتے ہیں، کچھ گندے انڈے ہوتے ہیں تو کچھ اوسط درجے کے مگر کرکٹ دیکھنے والوں کو پاکستان ٹیم کے ساتھ جڑے رہنے کا جواز ملتا رہتا ہے اس لیے پاکستان میں کرکٹ زندہ ہے، اسے دیکھنے اور کھیلنے والے بہت ہیں، ورنہ ہاکی کو کیا ہوا۔۔ کسی اور دن بات کرینگے۔۔
اچھا جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نظریہ کی بنیاد پر کرکٹ دیکھنے کا کیڑا، دونوں فیورٹ ٹیمیں آسٹریلیا پاکستان کی ٹیسٹ سیریز آگئی تو میں نے ہر روز صبح آغاز سے برسبین ٹیسٹ دیکھنا شروع کردیا اور صبح دفتر آتے وقت لائیو سٹریمنگ دیکھتے آنا اور کچھ آخری سیشن کا کچھ حصہ دفتر یا فیلڈ میں دیکھ لینا معمول تھا ۔۔ مختصرمیں نے برسبین ٹیسٹ اسی کرکٹ فین کی طرح دیکھا جو نہ صحافی ، نہ لکھاری، نہ تجزیہ نگار نہ کچھ اور۔۔۔۔ صرف اور صرف کرکٹ فین کی طرح پورا ٹیسٹ میچ دیکھا۔
اور میچ پاکستان ہار گیا۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے آسٹریلوی کپتان ٹم پین کی یوٹیوب پر پریس کانفرنس دیکھی۔
اچھا ایک بات اور، کیونکہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ میں برائن بننے کی چکروں میں سپورٹس جرنلسٹ بن گیا۔ تو کرکٹ کے شوق کی وجہ سے جیسے بتایا آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں پر بھی میں ویسے ہی نظر رکھتا ہوں جیسے پاکستان ٹیم پر رکھتے ہیں ۔۔۔۔ ایک کرکٹ فین کی طرح۔۔۔۔ ۔ تو مجھے باقاعدگی سے کپتانوں کی پریس کانفرنس اور وہاں کے اخبارات ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر کیا بات ہورہی ہے ، کارکردگی کیسی ہے، وہ لوگ گیم کے ساتھ کتنا سنجیدہ ہیں اور پروفیشنل کتنے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ سب تقریباٰ میں 18 برس سے دیکھ رہا ہوں اور پڑھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید میں 12 سال کا تھا جب میں رائٹ ہینڈ چھوڑ کر لیفٹ ہینڈ بیٹسمین بنا تھا۔ 12 برس کی عمر تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے لیکن ایکشن تبدیل کرکے اچھی کرکٹ کھیلنے کیلئے، اچھی یعنی گزارے لائق ۔۔۔۔ایسا ممکن ہے کیونکہ میں اس کی مثال ہوں میں 12 برس کی عمر میں رائٹ ہینڈ چھوڑ کر لیفٹ ہینڈ بیٹنگ پر چلا گیا اور اس کی وجہ برائن لارا تھے۔۔۔ اس پر جلد کچھ مزے کے واقعات لکھوں گا۔۔۔۔۔
بہرحال۔ قصہ مختصر میں 12 سال سے لیکر اب تک پاکستان ٹیم اور ارد گرد کی ٹیموں پر نظریں رکھتا ہوں ایک کرکٹ فین کی طرح۔۔۔۔۔۔ ایک لیفٹی بیٹسمین کی طرح ۔ ۔۔۔ تو میں نے ٹم پین کی پریس کانفرنس میں اس کی گفتگو، اور پھر آسٹریلوی اخبارات کی خبریں پڑھیں تو میری آہ نکلی۔۔۔۔ اتنے ناکارہ سسٹم کے باوجود آسٹریلیا والے چاہیے جیت گئے نسیم شاہ اور بابر اعظم اسی ناکارہ سسٹم سے نکلے ہیں جس پر آسٹریلوی صرف رشک کرتے رہ گئے۔۔۔۔۔ اور ہم لوگ اس سسٹم کو ناکارہ ، ناکارہ، ناکارہ صرف ناکارہ کہتے ہیں تعریف نہیں کرتے ۔۔۔۔
یہ کہاں کے سپورٹس لورز ہیں ؟
او کون او تسی ؟