آواز کون اٹھائے گا؟

تحریر سید ابرار شاہ
پاکستان کرکٹ بورڈ یعنی پی سی بی پاکستان میں ہر قسم کی کرکٹ ٹیسٹ کرکٹ سے لیکر سکول کرکٹ کے امور چلانے کا ادارہ ہے۔ یہ ادارہ یکم مئی 1949 میں بورڈ آف کرکٹ کنٹرول فار پاکستان (بی سی سی پی) کے نام سے بنا ہے اور 28 جولائی 1952 کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ 1995 میں اسکا نام تبدیل کرکے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) رکھ دیا گیا۔
1949 سے آج کی تاریخ تک اس ادارے کے 26 صدور اور چیئرمین گزرے ہیں موجودہ چیئرمین احسان مانی صاحب ہیں جو اگست 2018 سے اس عہدے پر منتخب ہوئے ہیں۔ہر چیئرمین نے اس ادارے کے معاملات کو اپنے طریقے سے چلایا اور اس کے آئین میں من پسند ترامیم کیں اور ملک میں رائج کرکٹ فارمیٹ تبدیل ہوتے رہے جیسے پوری دنیا کی کرکٹ میں ہوتا ہے اور کرکٹ ترقی کرتی رہی انفسٹرکچر بنتا رہا سنہ 2005 کی بعدملک میں دشگردی نے عروج پکڑا اور کرکٹ کا پہیہ بھی جام ہونا شروع ہوگیا ملک کے حکمرانوں کی توجہ ملک کا سوفٹ امیج دنیاکو دیکھانے کیلئے خواتین کی ریس اور دیگر چھوٹے کھیل کروانے پر مرکوز ہوگئی ہاکی پہلے ہی تباہی کے سفر پر گامزن تھی اوراب کرکٹ جوکہ ملک کا مقبول ترین کھیل ہے وہ بے توجہی کا شکار ہوگیا 2009 میں سری لنکن ٹیم پر دشتگردانہ حملہ ہواتو اس کا ازالہ کرکٹ بورڈ جو خودمختار اور مالی معاملات میں خودکفیل ادارہ ہے وہ نہیں کرسکتا تھا دشتگردی کا قلع قمعہ کرنا ریاست کا کام ہوتا ہے حکمرانوں کا کام ہوتا ہے جوکہ انہوں نے نہیں کیا اسکے باوجود بھی پاکستان کرکٹ بورڈ بہت ساری انتظامی خامیوں کے ساتھ کام کرتا رہا جوکہ بہت زیادہ تسلی بخش نہیں تھا مگراتنا برا بھی نہیں تھا۔ اسی دہائی میں دنیا کی کرکٹ نے ایک نئی کروٹ لی اور کرکٹ اتنی تیز ہوگئی کہ ہماری ٹیم اور باقی دنیا کی ٹیموں میں کارکردگی کا فرق بہت زیادہ ہوگیا ہمارے NCA میں بیٹھے قدیم طرز کے کوچز نے اپنی عمر اور ہمت کے حساب سے باقی دنیا کے ساتھ ڈوڑنے کی کوشش ضرورکی تاکہ بھاری بھر معاوضہ جات کو حلال کیاجائے مگر اپنی 80/90 کی دھائی والی ٹیکنیکس اور فٹنس میں ٹیم کو آخری نمبروں تک ہی رکھ سکے۔ بورڈ نے اپنی محنت سے PSL کو متعارف کرانے کے بعد اسے کامیاب بھی کرایا جوکہ بورڈ کو مالی طور پر مستحکم بے حد مفید ثابت ہو رہی ہے نجم سیٹھی کا یہ بہرحال کارنامہ ہے۔ اسی طرح جتنے بھی سربراہان آئے ہیں انہوں نے کبھی بھی ڈیپارمنٹل کرکٹ کو ختم کرنے کا سوچابھی نہیں کیونکہ آجتک کسی کے پاس کوئی ایک جواز نہیں ہے کہ ڈیپارٹمنٹ نے کرکٹ کو نقصان پہنچایا ہو۔ بلکہ نفع بخش ہی رہے ہیں تو نفع بخش چیز کو کوئی پاگل یادشمن ہی ختم کرےگا۔
احسان مانی صاحب نےآو دیکھا نہ تاو پورا ڈھانچہ ہی ملیہ میٹ کر دیا۔
سب سے پہلے انہوں نے اپنے لیڈر اور پی سی بی کے سرپرست اعلی وزیراعظم عمران خان کی منشاء کے مطابق ریجن اور ڈپارٹمنٹل سیٹ اپ کو ختم کر کے صوبائی سیٹ اپ لانے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ساتھ پرانا آئین معطل کرکے نیا ناقابل عمل آئین لانے کا اعلان کر دیا۔
نئے سیٹ اپ اور نئے آئین کی منظوری پی سی بی کی گورننگ بورڈ کے اجلاس میں اپریل 2019 میں لی گئی گورنگ بورڈ کے کچھ ممبران کو معطل کرکے بلآخر 19 اگست 2019 کو وفاقی وزارت بین الصوبائی رابطہ ڈوژن کے نوٹیفکیشن کے تحت نئے آئین کی منظوری دی گئی۔
نئے آئین کے تحت ڈومیسٹک کرکٹ کا سٹریکچر تبدیل کیا گیا اور18 ریجنز کو تحلیل کرکے 6 صوبائی ایسوسی ایشنز بنائی گئیں جنکی ایک فرسٹ کلاس ٹیم ہے اور ایک سیکنڈ الیون ہے اسی طرح ایک انڈر 13 انڈر16 انڈر19 کی ٹیمیں بنائی گئ ہیں جو اس سال کھیل رہی ہیں ۔ آئین کے تحت صوبائی ٹیموں کا انتخاب صوبائی ایسوسی ایشنز کی زیرنگرانی ہونا تھا جوکہ نہیں ہوا PCB سب صوبائی ایسوسی ایشنز کے معاملات چلارہی ہے جو آئین سے سراسر انحراف ہے ۔
90 ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن کو سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنزمیں بدلا گیا آئین کے مطابق مگر عملن کہیں بھی ابھی تک ان کے آثار بھی نظر نہیں آتے ۔
اپریل 2019 سے تمام 90 پلیئنگ رائٹس رکھنے والے اضلاع اور 18 ریجنل ایسوسی ایشنز معطل کیے گئے ہیں۔ حالانکہ پی سی بی کے نئے آئین کے مطابق جیسے ہی آئین نافذ العمل ہوگا اسی دن سے صوبائی ایسوسی ایشنز کے ایڈہاک کمیٹیوں کی تشکیل ہوجائے گی جو تاحال نہیں کی گئی۔ سٹی ایسوسی ایشنز میں کلبوں کی سکروٹنی اور سالانہ ٹورنامنٹس جوکئی اضلاع میں جاری تھے وہ بھی روک دیئے گئے۔ انٹر سٹی سینئر اوردیگر ٹورنامنٹ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوئے کیونکہ پرانا نظام اور لوگ فارغ کردئے گئے اور نئے تعینات نہیں کیئے۔
الٹا یہ کیا گیا کہ 2019 میں کھیلے جانے والے انٹر ڈسٹرکٹ کے انڈر 19 اور سینیئر ٹرافی نہیں کھیلی گئی، پچھلے دو سال سے کلب کرکٹ کی پروموشن کے لیے شروع کیے گئے فضل محمود نیشنل کپ کا انعقاد نہیں کیا جا سکا۔ گراس روٹ لیول پر سپورٹس میکس کے تعاون سے جاری انٹر سکولز انڈر 13 اور انڈر 16 ٹورنامنٹ کا انعقاد نہیں ہو سکا۔ ان اہم ایونٹس کے نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں انڈر 19، 16 اور 13 بچے بنا کھیلے اوورایج ہوگئے، جو کہ ٹیلنٹ کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں، اس تعطل کے دوران پاکستان میں موجود اکثر فعال گراونڈز غیر فعال ہوگئے ہیں، ان میں موجود 245 کے قریب اسٹاف کو فارغ کر کے بیروزگار کر دیا گیااور ان بےروزگاروں سے چند ایک اس صدمے سے اللہ کو پیارے بھی ہوچکے ہیں جو اخبارات کی زینت بھی بنے رہے۔ جو زندہ ہیں انکو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ ان غیر فعال گراونڈز میں موجود مشینری اسٹاف نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہو رہی ہیں۔
پی سی بی اپنے ہی بنائے گئے نئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر آئینی اقدامات کی مرتکب ہو رہی ہے
آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت آئین نافذ العمل ہوتے ہی PCB پابند ہے کہ تمام ایسوسی ایشنز کیلئے ایک سال کے ایڈہاک کااعلان کرتی ۔گورننگ بورڈ کے لیے چار ناموں کا اعلان کرتی۔ نئے الیکشن کمشنر کا اعلان کرتی اور عدالتی معاملات کے لیے جج کی تعیناتی کرتی۔
مگر ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں
نئے آئین کے آرٹیکل 40، 42 اور 43 کے تحت پی سی بی کا یہ فرض بنتا ہےکہ وہ آئین کے نافذ ہوتے ہی جلد از جلد آڈٹ کمیٹی، ہیومین ریسورس کمیٹی تشکیل دیتے لیکن ابھی تک ان کمیٹیوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایک طرف تو احسان مانی صاحب مطلق العنانیت کی خاطر صوبائی ایسوسی ایشنز اور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز کے عبوری کمیٹیوں کی تشکیل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے اوپر سے ہمارے سابقہ18 ریجنل ایسوسی ایشنز کے ممبران اور 90 ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن کے ممبران نے بھی چھپ کا روزہ رکھا ہے کوئی بھی آواز نہیں اٹھا رہا اور نہ ہی نئے آنے والے ٹیلنٹ کے ضیاع کے خلاف کوئی آواز اٹھا رہا۔
اب بھی وقت ہے پی سی بی کے پیٹرن انچیف وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان ایک نظر اس ادارے کی کارکردگی پر ضرور ڈالیں کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیوں صوبائی نگران کمیٹیوں کا اعلان نہیں ہو رہا؟ کیوں تمام ملک میں کرکٹ سرگرمیوں کو بریک لگا دیا ہے؟ کیوں سینکڑوں ملازمین کو بلاوجہ فارغ کیا گیا؟ کیوں انڈر 19 انٹرسٹی اور سینیئر ٹرافی انٹرسٹی نہیں کروائے گئے؟ کیوں فضل محمود نیشنل کپ کا انعقاد نہیں کیا گیا؟ کیوں پی سی بی اپنے ہی بنائے گئے آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب نہیں ہے تو اسکا مطلب ہے اپنے بنائے گئے نئے سسٹم سے PCB کے کرتا دھرتا خود بھی متمعن نہیں۔ اگر نہیں متمعن تو کھلا اعلان کیوں نہیں کرتا کہ اگلے ساک دوبارہ تبدیل کررہے ہیں اگر نہیں تبدیل کررہے تو اسکو فورن قابل عمل بنایا جائے تاکہ سکول کرکٹ سے لیکر صوبائی سطح تک مایوس بچے کرکٹ میں واپس آئیں۔

error: Content is protected !!