تحریر،اختر علی خان
پاکستان ہاکی کے عروج کے یہ وہ مناظر ہیں جو آج بھی ہاکی سے پیار کرنے والے ہر پاکستانی کے ذہن میں نقش ہیں،شائقین سے کچا کچ بھرا سٹیڈیم اس بات کا گواہ ہے کہ پاکستانی صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ ہاکی سے بھی پیار کرتے ہیں،یہ ہاکی کا کھیل ہی تھا جس نے ماضی میں ملک و قوم کی خوب لاج رکھی۔ ہمارے کھلاڑیوں نے دنیا بھر میں اپنے کھیل کی ایسی دھاک بٹھائی کہ گرین شرٹس انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لینے کےلیے جاتے تو شریک ٹیموں کے کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں گراؤنڈ میں اترنے سے قبل ہی پھول جاتے۔
شائقین اب بھی وہ لمحات فراموش نہیں کر پائے جب قطر ایشین گیمز 1962 کے فائنل مقابلے کے دوران بریگیڈیرعاطف کی تیز ترین ہٹس سے بھارتی گول کیپر لکشمن کا پورا جسم نیلا پیلا ہو گیا تھا، جب گولی کی رفتار سے بھی تیز آنے والی گیند لگنے سے چرن سنگھ وہیں ڈھیر ہو گیا اور جب ایک پاکستانی کھلاڑی کی ہٹ نے بھارتی گورونجش کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور اسے 15 ٹانکے لگے۔
اب یہاں ایسا کچھ نہیں۔۔۔ کوئی لمحہ قابل ذکر نہیں ، کوئی موومنٹ باعث فخر نہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ چار مرتبہ کے عالمی چیمپئن کو کوالیفائنگ رائونڈ میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ کیا ہو گیا پاکستان ٹیم کو ؟ کیا یہ وہی پاکستانی ٹیم ہے ؟ وہی کھلاڑی ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر تھے؟ اب وہ دنیا کی چھوٹی چھوٹی ٹیموں سے پانچ ، پانچ گول سے ہاریں گے۔ جرمنی اور ہالینڈ کی ٹیموں کو شکست دینے والے اب ملائشیا سے بھی مقابلہ نہیں کر پاتے۔
آج نوبت یہ ہوگئی کہ پاکستان عالمی اور اولمپکس مقابلوں میں شرکت تک سے محروم ہے، قومی کھیل ہاکی کو اس نہج پر پہنچانے میں کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا ہاتھ ہے۔جب پاکستان ہاکی کو چلانے والوں میں ذاتی مفاد ات عزیز ہوجائیں، جب کھلاڑیوں کے انتخاب میں پسند و نا پسند کا عنصر عام ہوجائے اور پاکستان ہاکی فیڈریشن میں لوگ من مانیاں کرنے لگ جائیں تو ہاکی ٹیم کا حال یہی ہونا تھا جو ہوچکا اس میں کسی غیر کو دوش نہیں دیا جا سکتا ، یعنی یہاں پر یہ کہا جائے کہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے “ تو کسی طرح بے جا نہ ہوگا
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہم عالمی ہاکی کے راستے سے بھٹک چکے ہیں، اس راستے پر واپس آنے کیلئے اب ایک طویل جہدوجہد کی ضرورت ہے، یہ کام راتوں رات ہونے کا نہیں، جو غلطیاں خامیاں اور کوتائیاں ہم کرچکے ان سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئی شروعات کرنا ہوگی، پاکستان ہاکی فیڈریشن کو ذاتی مفادت سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا، سابق کھلاڑیوں کو اپنی انا کے خول سے باہر نکلنا ہوگا ، حکومت کسی کی بھی ہو اسے قومی کھیل پر توجہ دینی ہو گی ،ہاکی کے کھیل کو بام عروج پرلانے کیلئے سکول اور کلب کی سطح پر منظم کرنا ہوگا ، اگر یہ سب کچھ نہیں کرسکتے تھے تو پھر دوبارہ عالمی چیمپئن بننے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑنا ہوگا،
کتنے افسوس کی بات ہے کہ 22روڑ سے زائد باسیوں کی سرزمین باصلاحیت کھلاڑی پیدا کرنے میں بانجھ دکھائی دیتی ہے جبکہ 50، 60 لاکھ اور ایک کروڑ تک کے آبادی کے بیشتر ممالک اولمپکس سمیت دنیا کے بڑے ایونٹس میں میڈلز جیت کر اپنے ملک کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں۔
ہم خود کو آج بھی ہاکی کا چیمپئن سمجھتے ہیں، ہمارا شاندار ماضی اس کا گواہ ہے ۔۔۔ جی ہاں درست ہے، لیکن ماضی کے کارنامے سنا کر ٹورنامنٹ نہیں جیتے جا سکتے۔