کوٹری(سپورٹس لنک رپورٹ)کورونا وائرس سے بچنے اور اسکے مذید پھیلائو کی روک تھام کے لیئے نافذ لاک ڈائون کے مقرہ اوقات کے دوران یا بعد میں افرد پابندیوں کے باوجود اپنے گھر کے باہر یا اسٹریٹس پر نامناسب تعداد میں کھیلوں سمیت مختلف سرگرمیوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔وہ بازاروں میں بھی موجود ہوتے ہیں اور روزگار کی تلاش یا اللہ کی رضا کے حصول کے لیئے عبادتگاہوں کا بھی رخ کرتے نظر آتے ہیں۔اور وہ باقائدہ اجازت ملتے ہی تو وہ آپے سے ایے باہر ہوجاتے ہیں کہ سماجی ضرورتوں اور پابندیوں کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کورونا واٙئرس ہے ہی نہیں اور حکومت نے بلاوجہ لاک ڈائون کررکھا ہے۔
رہی کھیلوں باقائدہ بحالی کی بات تو بیس بال و ہاکی فیڈریشن اس ضمن میں پچھلے دو ماہ میں مطالبوں کی بھرمار کرچکی ہے اور اب تو دیگر فیڈریشنز بھی حکومت سے بھرپور مطالبے کررہی ہیں کہ کھیلوں کی سرگرمیوں کا آغاز کرنے کی اجازت دی جائے۔پاکستان فیڈریشن بیس بال کے صدر سید فخر علی شاہ مختلف ایس او پیز جاری کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو انکے گھروں میں ریتے ہوئے آن لائن تربیت فراہم کرکے کسی نہ کسی طرح مقابلوں کے لیئے تیار رکھے ہوئے ہیں وہ فیڈریشن کے چیئرمین شوکت جاوید، سینیئر نائب صدر انجینیئر محمد محسن خان، ہیڈ کوچ مصدق حنیف، کوچ طارق ندیم، وومین ونگ کی چیئرپرسن سادیہ علوی، سیکریٹری عائشہ ارم اور راقم التحریر سے روزانہ کی بنیاد پر رابطوں میں ہیں تاکہ کسی بہتر قدم کو اٹھانے میں دیر نہ ہو اور ملک کے کونے کونے میں موجود بوائز و گرلز ٹیلنٹ کی لوکل کوچز رہنمائی کرتے رہیں۔مسئلہ پاکستان کی رینکنگ اور ساکھ متاٹر ہونے سے بچانا ہے اس لیئے گھروں میں تربیت یا آن لائن نگرانی کو ناکافی سمجھتے ہوئے سید فخر علی شاہ حکومت سے پی ایس بی اسلام آباد میں کیمپس لگانے کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں۔جب باقائدہ فیڈریشن و صوبائی، ڈویژنل و ضلعی سطح کی ایسوسی ایشنز یا انکے ماتحت کلبس یا کھلاڑی و کوچز زمیداری اٹھانے کا عندیہ دیے ریے ہیں اور حکومت سے بھی مطالبے کررہے ہیں تو ایسی صورت میں کھیلوں کو بھی بحال کردینا چاہیئے۔
اسپورٹسمین کوئی عام لوگ نہیں ہوتے ان پر عام شہریوں سے بڑھ کر زمیداریاں عائد ہوتی ہیں وہ مشکل وقت یا ایمرجنسی میں فورسز، اسکائوٹس، تربیت یافتہ رضاکاروں کے ہم پلہ تصور ہوتے ہیں اور چونکہ وہ اپنے علاقے کے سفیر ہوتے ہیں اس لیئے امن پسند بھی ہوتے ہیں۔اس لیئے کھیلوں کے زمیداران سے التماس ہے کہ اپیل یا درخواست مہذب و باقائدہ انداز سے کی جائے اور حکومت کو بھی چاہیئے کہ جس طرح وہ دیگر سماجی، مذہبی، تجارتی، تعلیمی ایسوسی ایشنز یا گروپس کی ایس او پیز منظور کرکے کاروبار، ٹرانسپورٹ و دیگر سرگرمیاں بحال کرچکی ہے اسی طرح کھیلوں کے مقابلوں و سرگرمیوں کی اجازت دیے اور ان کھیلوں کے آفیشل کیمپس کا فی الفور اہتمام اپنی نگرانی میں کرے کہ جن ٹیموں نے ماہ اگست کے بعد ایشیائی سطح کے اعلان شدہ مقابلوں میں شرکت کرنی ہے اور وہ اپنی رینکنگ کو بہتر بنانے یا کم از کم برقرار رکھنے کی خواہاں ہیں انکی بھرپور رہنمائی کی جائے جیسا کہ پاکستان کی انڈر 18 اور انڈر 12 بیس بال ٹیموں نے بالترتیب ستمبر اور نومبر 2020 میں ایشین چیمپیئن شپس تائیوان میں شرکت کرنا ہے۔اگر ایسا نہ ہوا اور ہم بھرپور تیاری اور حکومتی تعاون حاصل نہ کرسکے اور ایشیائی مقابلوں میں نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکے تو ورلڈ کے دیگر مقابلوں کے لیئے کوالیفائی نہیں کرسکیں گے اور اسکی تمام تر ذمیداری حکومت پر عائد ہوگی۔
سب جانتے ہیں کہ کھیل اب محض تفریح، فرصت کے وقت کو گزارنے، ورزشوں، جسمانی و دماغی نشمونما، قوت مدافعت سمیت دیگر جسمانی نظاموں کی بہتری کے حصول کے لیئے ہی نہیں کھیلے جاتے بلکہ وہ پروفیشن کی صورت اختیار کرگئے ہیں کیونکہ کھیلوں کے مقابلوں سے کھلاڑیو کوچز ملک کا پرچم سربلند رکھنے کے ساتھ ساتھ شہرت اور پیسوں کا حصول بھی ممکن بناتے ہیں اور اپنے گھرانے کی کفالت کا زریعہ بن جاتے ہیں اس لیئے حکومت وقت کو اس بارے میں فی الفور ترجیہی بنیادوں پر سوچنا ہوگا اور کم از کم ملکی نیک نامی اور گھرانوں کے لیئے روزگار فراہم کرنے والے پروفیشنل کلبس و فیڈریشنز کو سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ انکی بھی احساس محرومی ختم ہو سکے