پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کا تیسرا میچ آج قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جائیگا، اب تک کھیلے گئے دونوں ٹی ٹوئنٹی میچوں میں دونوں ٹیموں کے درمیان دور دور تک کوئی مقابلہ نظر نہیں آیا،
پہلے میچ میں کیویز کی ٹیم 88 جبکہ دوسرے میچ میں شکست کے مارجن کو کم کرتے ہوئے 38 رنز سے ہاری اور یہی بات اب تک نیوزی لینڈ کی ٹیم کیلئے حوصلہ افزا کہی جاسکتی ہے، نیوزی لینڈ کی ٹیم نے اس سیریز کیلئے ایسی ہی ٹیم پاکستان بھیجی ہے جیسی ہم نے افغانستان کیخلاف سیریز کیلئے
شارجہ بھیجی تھی یعنی جیسا ہم افغانستان کو سمجھتے ہیں ویسا نیوزی لینڈ والے ہمیں سمجھتے ہیں، نیوزی لینڈ کے مستند ٹی ٹوئنٹی پلیئرز اس وقت آئی پی ایل میں جلوہ گر ہیں جبکہ کپتان کین ول
یمسن گھٹنے کی انجری کے بعد علاج کرانے میں مصروف ہیں، کمزور کیویز کو دیکھ کر پاکستانی شاہین ان پر ٹوٹ پڑے، کمزور ٹیم کیخلاف کھیلنے کا پاکستانی کھلاڑیوں ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ سیریز جیتیں گے
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ عالمی درجہ بندی میں بہتری لے آئیں گے، سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے نوجوان کرکٹرز کی صلاحیتوں کو پرکھانے کا فیصلہ کرلیا تھا تو ایک افغانستان سے ہی سیریز میں شکست کے بعد یکدم
عمران خان کی طرح یوٹرن کیوں لے لیا، اسی نوجوان ٹیم کو نیوزی لینڈ کیخلاف ہوم سیریز میں بھی میدان میں اترتے تاکہ انہیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا بھرپور موقع تو ملتا، صرف ایک سیریز کیلئے اگر خانہ پری
ہی کرنی تھی تو وہ ایک الگ بات ہے یا افغانستان کے ساتھ کوئی ساز باز کر رکھی تھی تو وہ بھی ٹھیک ہے، بہرحال سیریز میں دونوں ٹیموں کی اب تک کی کارکردگی سے لگتا یہی ہے کہ کیویز پانچ صفر سے
شکست کھا جائینگے اور اگر وہ سیریز میں ایک یا دو میچ جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کو اپنی فل سٹرینتھ ٹیم کے بارے میں بھی فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کیوی ٹیم افغانستان سے بھی کمزور ہے۔