صاحب بہادر، نالائق اور من پسند افراد کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں لانے کی کاوشیں.

 

صاحب بہادر، نالائق اور من پسند افراد کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں لانے کی کاوشیں

مسرت اللہ جان

صاحب بہادر!
ہم مانتے ہے کہ آپ پاکستان کے لائق ترین افراد میں سے ہیں، کیونکہ آپ نے مقابلے کا امتحان پاس کیا ہے اورمقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس ملک کے عوام کیڑے مکوڑے ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہی کیڑے مکوڑے آپ کیلئے اپنے جسم کا پسینہ و خون ٹیکس کی مد میں جمع کراتے ہیں جس سے آپ صاحب بہادر لوگوں کو تنخواہیں ملتی ہیں.یہ بات بھی غلط ہے کہ ان کیڑے مکوڑوں کی خدمت کی جارہی ہیں ان کی خدمت نہیں کی جارہی بلکہ ان پر حکومت یہی مقابلے کا امتحان پاس کرنے والے افراد کررہے ہیں اور یہی مراعات یافتہ طبقہ پورے ملک اور مختلف ڈیپارٹمنٹس پر قابض ہے اور اسے اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی جاتی ہیں اور بیشتر اوقات ان کی یہی مرضی پورے ڈیپارٹمنٹ کا بیڑہ بھی غرق کردیتی ہیں.

 

خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ صوبے کا واحد ڈیپارٹمنٹ ہے کہ ایک زمانے میں کوئی اس کو لینے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس میں کچھ نہیں ہوتا اور اب حال یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد ہر وزیر کی خواہش ہوتی ہے کہ یہی ڈیپارٹمنٹ اس کے حوالے کی جائے کیونکہ اس میں ” بہت کچھ” ہیں.او ر اسی "بہت کچھ”کو حاصل کرنے کے چکر میں ہر ایک وزیر کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے من پسند افراد یہاں پر تعینات کئے جائیں تاکہ ڈائریکٹریٹ ان کی مرضی پر چلے.

 

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، سابق دور حکومت میں صوبائی حکومت کے اس "کماؤ پوت” ڈائریکٹریٹ کو سابق وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے اپنے ہاتھوں میں رکھا اور یہی وزارت ان کے پاس اضافی طور پر رہی، بعد میں جب مردان کے ممبر اسمبلی کے تعلقات بنی گالا سے بہتر ہوئے تو انہیں یہ ڈیپارٹمنٹ حوالہ کیا گیا.اور اس دور میں انٹر ورسٹی سمیت انٹر کالجز، انٹر کانسچوینکنسی یعنی حلقہ جات کے مقابلے بھی کروائے گئے، حالانکہ اس سے فائدہ صرف ممبران اسمبلی، کالجز اور یونیورسٹیوں کو ہوا، او ر نئے کھلاڑی بہت کم سامنے لائے گئے تاہم اس اقدام کے باعث بہت سارے "بھوکے ننگے” صاحب حیثیت بھی ہوگئے. اس وقت یہی کہا گیا تھا کہ یہ وزیر کا برین چائلڈ ہے، اس وقت بھی انہی صفحات کے ذریعے کہا تھاکہ وزیر کے جانے کے بعد کہا جائیگا کہ یہ وزیر کے دماغ میں کیڑا تھا جس کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ نے ایسے مقابلے بھی کروائے جو اس کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں تھے.سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا بنیادی کام سہولیات کی فراہمی اور نرسری سطح پر کھلاڑیوں کو لانا ہے، سہولیات کی فراہمی ایک الگ اور وسیع موضوع ہے جس پر پھر کبھی لکھیں گے کہ سہولیات کی فراہمی میں کس طرح من پسند افراد کو نوازا گیا لیکن نرسری سطح پر کھلاڑیوں کے بجائے یونیورسٹی سطح کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، ان مقابلوں سے نکلنے والے کھلاڑی کہاں پر ہیں، اس بارے میں وزیر تو بات نہیں کرینگے لیکن اس وقت ان مقابلوں کو سپورٹ کرنے والے خود اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کیا اس طرح کے اقدامات سے انہوں نے اپنے عہدے کا غلط استعمال نہیں کیا. اور غداری نہیں کی.اپنے َعہدے کیساتھ خیانت نہیں کی. ان معاملات پرتاحال خاموشی ہیں یہ خاموشی کب ٹوٹے گی. شائد کبھی نہیں.

 

سابق دور میں ہی اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈیپوٹیشن پر لانے کا سلسلہ جاری ہوا تھا حالانکہ وزیراعلی خیبرپختونخواہ نے اسے ختم کیا لیکن پھر وزیر کی تبدیلی کے ساتھ مردان اور دیگر علاقوں میں ڈیپوٹیشن پر لانے کا سلسلہ جاری رہا، جو تاحال جاری ہے. اس ڈیپارٹمنٹ میں آنے والا ہر نیا افسر پرانے کوبخشواتا ہے.جس طرح ملکی سیاست میں ہر نیا آنیوالا سیاستدان پرانے کو بخشوا کر چلا جاتا ہے تقریبا یہی سلسلہ اس ڈیپارٹمنٹ میں بھی ہے.

 

اسی ڈیپارٹمنٹ میں 1122 کے ایک کمپیوٹر آپریٹر کو بطور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں لایا گیا حالانکہ یہ تکنیکی عہدہ ہے اور اس میں ایسے لوگ لائے جائیں جنہوں نے کھیلوں کے شعبے میں کوئی نمایاں کردار ادا کیا ہو تو پھر بھی ڈیپوٹیشن کی بنیاد بنتی ہیں، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کسی کی خدمات+ سپورٹس کے حوالے سے ہو توپھر بھی تک بنتی ہیں لیکن ایک کمپیوٹر آپریٹر کس طرح ضلع کی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرے گا، ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کرے گا، پروپوزل تیار کرے گا اور اس حوالے سے پروگرام بنائے گا، یہ وہ چیزیں ہیں جس پر کھیلوں سے وابستہ لوگ ہی سمجھتے ہیں لیکن ریسیکیو ڈیپارٹمنٹ کے کمپیوٹر آپریٹر کو لانے کی بڑی وجہ اس ڈیپارٹمنٹ میں رشتہ داری ہے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ کروایا گیا، اور متعلقہ کمپیوٹر آپریٹر کو ہری پور میں تعینات کیا گیا تاہم ہری پور میں تعینات اہلکار نے عدالت عالیہ سے اس معالے پر حکم امتناعی حاصل کرلی.جس کے بعد بجائے اسکے ڈیپارٹمنٹ متعلقہ اہلکار کو واپس بھیج دیتی اسی اہلکار کی تنخواہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر تور غر پر نکالی گئی اور بعد میں اسی کمپیوٹر آپریٹر کو ڈی ایس او ایبٹ آباد تعینات کیا گیا جس پر بھی حکم امتناعی حاصل کرلیا گیا اور اب ان اضلاع میں جب تک ڈی ایس او کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک کھیلوں کی سرگرمیاں معطل ہی رہینگی.

 

ایک طرف مہنگائی، دوسری طرف منشیات اورموبائل فون کے بڑھتے استعمال نے نوجوان نسل کو آئس جیسے لعنت کی جانب راغب کردیا ہے وہاں پر دو اضلاع میں من پسند ڈی ایس او کو لانے کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی پالیسی کیا صورتحال پیدا کرے گی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس کے اثرات نوجوان نسل پر کیسے پڑیں گے اور مثبت سرگرمیوں کے بجائے منفی سرگرمیوں میں نوجوان طبقہ کیوں نہ دلچسپی لے گا یہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت اس صوبے کے اعلی حکام کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے.

 

بجائے اس کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ اپنے پرانے فیصلے کو واپس لیتی کہ ریسکیو کے کمپیوٹر آپریٹر کو واپس ڈیپارٹمنٹ میں بھیجا جاتا، اسی عہدے پرتعینات رکھنے کیلئے کیسے کیسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں یہ اس ڈیپارٹمنٹ کا المیہ ہے، دوسری صرف بدقسمتی یہی ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے اس ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالا ہر ایک اپنے ہی بندے لاکر کام چلانا چاہتا ہے، اور بیشتر کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں نالائق بھرتی ہوئے ہیں اگر نالائق بھرتی ہوئے ہیں تو پھر انہیں فارغ کیا جائے لیکن بجائے اس طرح کے کوئی کام کرنے کے بجائے کہ ان نالائق لوگوں سے کام لیا جاتا ہر آنیوالا افسر اپنے ساتھ مخصوص اور من پسند لوگ مختلف ڈیپارٹمنٹ سے لیکر آتا ہے اور دو سال گزار کر چلا جاتا ہے. ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے بیشتر اعلی افسران اس ڈر سے بات نہیں کر پاتے کہ ہم بھی نشانہ بنیں گے اس لئے جو کچھ ہورہاہے ہونے دو، اور اسی ہونے دو کے چکر نے ہر چیز کا بیڑہ غرق کردیا ہے. کوئی اس حوالے سے بات کرنے کو تیار نہیں، دوسری طرف نگران حکمران بھی اس معاملے میں اس حد تک دلچسپی لے رہے ہیں کہ ان کے کچھ لوگ ڈیپارٹمنٹ میں کھپ سکیں انہیں اس ڈائریکٹریٹ کا خیال ہی نہیں.ایسے میں اور اس طرح کے حالات میں ڈیپارٹمنٹ کس طرح چلے گا اور نوجوان نسل کس طرح مثبت سرگرمیو ں کی طرف جائیں گے یہ بڑا سوالیہ نشان ہے.

 

 

error: Content is protected !!