سائیکلنگ ، آفیشل اور غائب سائیکل ; تحریر ‘ مسرت اللہ جان

 

 

سائیکلنگ ، آفیشل اور غائب سائیکل

تحریر; مسرت اللہ جان

 

پنجاب سے تعلق رکھنے والے سائیکلنگ کوچ قیصر بھٹی نے ورلڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں جانے والے ٹیم پر اعتراض کرتے ہوئے بڑی دھماکہ دار خبر دی ہے کہ سکاٹ لینڈ میں ہونیوالے سائیکلنگ چیمپئن شپ کیلئے صرف دو سائیکلسٹ گئے ہیں جبکہ دس آفیشل ان سائیکلنگ کیساتھ گئے ہوئے ہیں انہوں نے آئی پی سی کے سیکرٹری سمیت پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ، پاکستان سپورٹس بورڈ سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ باہر سے ٹیکس فری سائیکلیںپاکستان میں لاکر فروخت کی جاتی ہیں.قیصر بھٹی نے اردو میں لکھے گئے خط کیساتھ سوشل میڈیا پر چلنے والی سائیکلنگ فیڈریشن کے صدر کی تصاویر بھی شیئر کی ہیں اور عوامی ٹیکسوں کے ضیاع کے نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے.

 

قیصر بھٹی کا اعتراض ایک طرف ، سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ صرف دو سائیکلسٹ کیساتھ جانیوالے دس آفیشل کی اجازت انہیں کس نے دی ، ٹھیک ہے فیڈریشن جو چاہتی ہے کرسکتی ہے لیکن اتنی اندھیرنگری بھی نہیں مچی کہ دس آفیشل چلے جائیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ، ہمارے ایک ساتھی جو کھیلوں سے وابستہ ہیں گذشتہ روز ہمارے بتا رہے تھے کہ ایک بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کیلئے جب وہ جارہے تھے تو وہ انہیں اسلام آباد ائیرپورٹ پر ایف آئی اے کے حکام نے روک لیا او ر ان سے کہنا شروع کردیا کہ ہمیں لگتا ہے کہ آپ واپس نہیں آئیں گے. بعد میں ہمارے دوست کے بقول جب ہم نے انہیں کھری کھری سنادی تو وہ چپ ہوگئے ساتھ میں ہمارے ساتھی نے انہیں اپنے پاسپورٹ پر لگے ویزے دکھا دئیے جس پر انہیں جانے دیا گیا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائیکلنگ فیڈریشن کی ٹیم جب سکاٹ لینڈ جارہی تھی اور ان کے ساتھ دس آفیشل جارہے تھے تو وہ اس وقت ایف آئی اے کے حکام کہاں سوئے تھے ، پی ایس بی کے حکام کہاں سوئے ہوئے تھے.

 

چلیں دو سائیکلسٹ کیساتھ دس آفیشل بین الاقوامی ٹورز پر چلے گئے ہیں کیا سائیکلنگ کے ان بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سائیکلسٹ کی کارکردگی کیا رہی ہے ، یہ وہ بڑا سوال ہے جو فیڈریشن سے اس وقت کرنے کا ہے سال 2018 سے لیکر اب تک یعنی سال 2023 تک ہونیوالے سائیکلنگ کے ورلڈ رینکنگ مقابلوں میں پاکستانی سائیکلسٹ انتہائی نچلی سطح پر نظر آئے یعنی اڑتالیس سے چون نمبر تک پاکستانی سائیکلسٹ ان مقابلوں میں شرکت کے بعد پوزیشن لیکر آئے ہیں .کیا بین الاقوامی کھیلوں کی تنظیمیں اتنی اندھی ہیں کہ وہ پوچھ بھی نہیں سکتی کہ گذشتہ کئی سالوں سے آپ کی کارکردگی انتہائی بری ہیں تو اس طرح کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کے سائیکلنگ سے وابستہ افراد کس طرح گئے ہیں.صرف خانہ پری کیلئے جانیوالے ان مقابلوں کی جانچ پڑتال اگر پاکستان سپورٹس بورڈ نہیںکرسکتی نہ ہی اولمپک ایسوسی ایشن تو پھر کون پوچھے گا . شائد اس صورتحال پر اب عوام خود ہی پوچھ لے کیونکہ عوامی ٹیکسوں پر مخصوص لوگ عیاشیوں میں مصروف عمل ہیں.دوسری طرف یہاں سے جانیوالے کھلاڑی بین الاقوامی ٹورز پر جانے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں ، کوچنگ کے نام پر بھی رہ جاتے ہیں حال ہی میں سپیشل گیمز برلن میں منعقدہ مقابلوں میں بھی خیبر پختونخواہ کے کھلاڑی و کوچ غائب ہوگئے.

 

عیاشیوں پر یاد آیا کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ضم اضلاع کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انکے پاس سائیکلنگ کا کوچ موجود تھا یہ الگ بات کہ فاٹا جو کہ اب ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ بن چکا ہے سائیکلنگ کوچ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی کھلاڑی پیدا نہیں کرسکا ہے ، شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ ٹور ڈی مہمندسائیکل ریس جو کہ سال 2015 میں ہو ئی تھی اس کے بعد قومی سطح کی ایک سائیکل ریس فاٹا نے منعقد کروائی تھی اورپھرخاموشی چھا گئی ، اس وقت سے لیکر آج تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ان مقابلوں کیلئے جو سائیکل لئے گئے تھے وہ غیر معیاری تھے ، اور اس پر لاکھوں روپے فی سائیکل فاٹا سے نکالے گئے ، کم و بیش اٹھارہ لاکھ روپے کی ان سائیکلوں کا تاحال پتہ نہیں چل سکا ، حالانکہ سال 2016 میں اس وقت کے ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈائریکٹر فیصل جمیل نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا تھا جس میں انہوں نے سائیکل واپس لانے کیلئے کہا گیا تھا لیکن سال 2016سے لیکر 2023 تک ان سائیکلوں کے بار ے میں پتہ نہیں چل سکا کہ اس وقت لاکھوں روپے مالیت میں لی جانیوالی یہ سائیکلیں کس کے پاس ہے اور کہاں پر ہے . معاملہ چونکہ عوامی ٹیکسوں سے لئے گئے سائیکلوں کا تھا اسی بناءپر ان سب معاملات پر بھی خاموشی چھا گئی اور لاکھوں روپے کی سائیکلیں عیاشی کی نذر ہوگئی.ضم اضلا ع کے لوگ ویسے بھی سادہ ہوتے ہیں نہ انہیں یہ پتہ ہوتا کہ ان کے ساتھ کون کونسا کھیل رہا ہے ، ان کے نا م پر کو ن بھرتی ہوا اور کتنی غیر معیاری سائیکلیں لاکھوں میں لی گئی اور کہاں غائب ہوگئی یہ اور بہت ساری باتیں ہیں جس پر لوگ خاموش ہیں.اور اپنے سابقہ پیش روں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں.

 

پیش رو کو مورد الزام ٹھہرانے کی یہ منطق اور سیاست نہ صرف ملکی سیاست میں موجود ہے بلکہ اب تو کھیل کے شعبے میں بھی اس طرح کے نام نہاد ڈرامے کئے جاتے ہیں سابقہ افرا د کو مورد الزام ٹھہرا کر ایسے ایسے ڈرامے اب بھی کئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اب کی بار ہر چیز صحیح سمت اور قانون کے دائرے میں ہوگی لیکن یہ بھی ایک ڈرامہ ہے.اسی ڈرامے کے پیش نظر حال ہی میں ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ضم ہونے کی اطلاع پر کھیلوں سے وابستہ حلقے اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ نہ صرف ڈائریکٹریٹ میں بلکہ بالخصوص ضم اضلاع میں جعلی کاغذات پر بھرتی ہونیوالوں کا احتساب کیاجائے اور جو لوگ جعلی کاغذات پر بھرتی ہوئے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے ساتھ انہیں پابند سلاسل کیا جائے اور حقیقی معنوں میں میرٹ پر بھرتیاں کی جائے اور ضم اضلاع کے لوگوں کو ہی لایا جائے تاکہ نہ صرف ضم اضلاع کے لوگوں کی احساس محرومی کا خاتمہ ہو بلکہ وہ کھیلوں اور دیگر مثبت سرگرمیوں کی جانب متوجہ بھی ہوں.

 

 

error: Content is protected !!