نگران وزیراعلی خیبر پختونخواہ و گورنر خیبر پختونخواہ کی خدمت میں عرض داشت
جناب عالی!
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں گذشتہ چار ماہ کے دوران ہونیوالے کچھ واقعات کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں آپ خود اس کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ کس طرح صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو پرائیویٹا ئز کیا جارہا ہے
اور غریب کھلاڑیوں پر کھیلوں کے دروازے بند کئے جارہے ہیں.اسی طرح گذشتہ تین ماہ سے کھیلوں کے مختلف کوچز کو "پی سی ون”منظور ہوتا ہے ، آپ کو لیں گے کے طمع پر لٹکا کر ان بے کس کوچز و مزدور طبقے کو کس طرح تباہ و برباد کیا گیا ا س کا سہرا بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو حاصل ہے او ررہے گا.
اس صوبے کے کھلاڑیوں نے کوئٹہ میں ہونیوالے نیشنل گیمز میں بہترین پوزیشن حاصل کی ، سندھ کی پوزیشن سوئمنگ کی وجہ سے بہتر آئی جبکہ ہمارے ہاں سوئمنگ پول پورے سال میں چار ماہ میں چلتا ہے اس باعث ہمارے میڈل کم آئے ورنہ اوور آل تمام صوبوں میں خیبر پختونخواہ کی پوزیشن میڈل کے لحاظ سے بہتر آئی.
نیشنل گیمز میں بہترین پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو ان کے متعلقہ صوبوں میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے انعامات دئیے ، ان کی حوصلہ افزائی کیلئے پروگرامات منعقد کئے لیکن خیبر پختونخواہ میں خاموشی رہی ہے.کیا یہ کھلاڑیوں کیساتھ ظلم نہیں.
انتظامیہ نے صوبے بھر میں کام کرنے والے تین سو کے قریب ڈیلی ویجز ملازمین جس میںمختلف کھیلوں کے کوچز بھی شامل ہیں کو فارغ کردیایہ کہہ کر کہ ابھی فنڈز نہیں اور پی سی ون منظور ہوگا تو پھر ان کو بھرتی کیا جائیگا لیکن دو نگران وزراءآئے اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ ایک پی سی ون منظور نہیں کراسکی.
نہ ہی ان ڈیلی ویجز ملازمین اور کوچز جو کئی سالوں سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیساتھ وابستہ تھے اور ان کے تربیت سے کئی قومی اور بین الاقوامی کھلاڑی نکلے ہیں مہنگائی کے ا س دور میں تین ماہ سے بیروزگار ہیں ،اور ایک دن قبل بھی انہیں یہ "لارا لپا” دیکر اگلے دس دن میں مثبت جواب آجائے گا کو ایک مرتبہ پھر لٹکا دیا گیا ہ
انڈر 21 کے کھلاڑیوں کیلئے اعلان کردہ رقم اور سکالرشپ کا کوئی اتہ پتہ نہیں ، اسی بناءپر بہت سار ے انڈر 21 کے کھلاڑی دلبرداشتہ ہوکر گراﺅنڈ چھوڑ رہے ہیں ایسے میں کس طرح نیا ٹیلنٹ آئیگا.کیونکہ کھلاڑی اپنے کوچز کو دیکھتے ہیں کوچز فارغ کردئیے گئے ہیں ایسے میں وہ کس طرح مختلف کھیلوں کی بنیادی تکنیک سیکھیں گے . یہ بنیادی سوال ہے جو پوچھنے کا ہے. جس پر تاحال خاموشی ہے.
حال ہی میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ ضم اضلاع کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں ضم کردیا گیا حالانکہ ایسی کوئی نوٹیفیکیشن ہوا بھی نہیں ، لیکن پھر بھی چند مخصوص لوگوں کو آگے لانے کیلئے سینارٹی لسٹیں بنا دی گئی قانون کے مطابق ضم اضلاع کے اہلکار سینارٹی کے لحاظ سے نیچے آئیں گے لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا نرالا اور اپنا دستور و قانون ہے کہ صرف چند لوگوں کو خوش کرنے کیلئے من پسند سینارٹی لسٹیں بنا دی گئی ہیںجس کے خلاف عدالت عالیہ پشاور میں بھی کیسز کا ایک نیا پنڈورہ بکس کھل گیا ہے.
اٹھارہ کرکٹ اکیڈمیوں اور گیارہ ہاکی ٹرف جس پر اعتراضات تھے اور تاحال اس کی تعمیر سمیت مختلف چیزوں پر اعتراضات آئے ہیں ، بجائے اس کی انکوائری کرکے ذمہ داروں کے خلا ف کارروائی کی جائے اب انہیں پرائیویٹائز کرنے کا اقدام اٹھایا گیا ہے حالانکہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا
اور اس بارے میں اشتہار جاری کئے گئے حالانکہ کیپرا نے اس پر اعتراض بھی کیا ہے ، مزے کی بات یہی ہے کہ جن صاحبان کے مشورے سے نجکاری کا یہ عمل شروع کیا گیا وہ خود پراجیکٹ کے ملازم ہیں اور وہ تین جگہوں سے اضافی تنخواہیں لے رہے ہیں ، یہ واحد وزارت ہیں جس کے جی آئی ایس سپیشلسٹ اور ایم آئی ایس سپیشلسٹ بھی ایک ہی ہیں. یہ واحد وزارت ہیں جس کے پراجیکٹ ملازم کو ڈائریکٹریٹ میں اضافی عہدہ دیا گیا ..
سابق دور حکومت نے چوہا گجر سمیت بٹگرام میں مختلف جگہوں پر سپورٹس کمپلیکس بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کیلئے ان جگہوں پر سیکشن فور لگائے گئے ، نامعلوم وجوہات کی بناءپر منظور شدہ ان جگہوں کو حال میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ختم کردیا اور اب نئی جگہوں کا انتخاب کیا جارہا ہے ، کیوں کیا جارہا ہے ، یہ وہ سوال ہیں جو کہ کرنے کا ہے اور منظور شدہ زمینیں کس کے کہنے پر اور کیوں ختم کی گئی اس کا فائدہ کس کو پہنچا یہ وہ سوال ہیں جو کہ کرنے کے ہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے حال ہی میں اتھلیٹکس کے پرائیویٹ کوچ سے معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے کے رو سے اب ہر کوئی پانچ سے سات ہزار روپے فیس دیکر سرکاری بلڈنگ میں پرائیویٹ جیم کو ادائیگی کرے گا ، کیا اتھلیٹکس کے مستقل کوچز سے کام نہیں لیا جاسکتا ، کیا کسی سرکاری ملازم کو دوسری جگہ پر سرکاری ادارہ معاہدہ کرسکتا ہے اور کیا سرکاری بلڈنگ میں پرائیویٹ کوچنگ ہوسکتی ہیں یہ وہ سوالات ہیں جو کہ کرنے کے ہیں .
کھیلوں کے ایک ہزار منصوبے میں مکمل ہونیوالے منصوبوں کی چیکنگ و مانیٹرنگ کی ضرورت ہے ایسی چیزیں بشمول کلائمبنگ وال بنائے گئے جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ، سنتھیٹک کورٹ بنائے گئے جو کہ غیر معیاری ہے اسی طرح چترال میں ایسے راستوں پر پولو کے گرائﺅنڈز بنائے گئے
جہاں کچھ بھی نہیں تھا.اسی طرح اس منصوبے کیلئے فنڈز نہیں لیکن تین تین عہدوں کیلئے تنخواہیں لینے والوں کیلئے فنڈز موجود ہیں ، جب پراجیکٹ کیلئے فنڈز نہیں تو پھر ان اخراجات کی ضرورت کیوں اور کس طرح ہیں ، یہ وہ سوال ہیں جو کہ آپ کے کرنے کے ہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں چند کھیلوں میں ون ٹو ون پریکٹس کے نام پر کھلاڑیوں سے ماہانہ سات سے دس ہزار روپے وصولی کے مطالبات کئے جارہے ہیں کہ اس طرح تکنیک سکھائے جائیں گے اگر کوئی ادائیگی نہیں کرسکتا تو پھر ” چولہے فروخت کریں”جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں کیا یہ صوبے اور خصوصا پشاور کے بچوں او رکھلاڑیوں کیساتھ ظلم نہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت بھی کوئی معلومات فراہم کرنے سے انکاری ہے اس سلسلے میں متعدد درخواستیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو دی گئی ہیں جبکہ اس کی شکایت رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن میں بھی کردی گئی ہیں
مگرسپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے افسران اپنے آ پ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے معلومات دینے سے انکار ی ہیں حالانکہ یہ جو تنخواہیں لیتے ہیں یہ عوام کے ٹیکسوں کی کمائی ہے اور انہی کمائی پر یہ لوگ نہ صرف خود بلکہ اپنے خاندان والوں کو بھی پالتے ہیں اور خود کو احتساب سے مبرا سمجھتے ہیں.
یہ چند گزارشات آپ کی خدمت میں عرض کردی ہیں ، انشاءاللہ اس حوالے سے تفصیلی طورپر دوسرے لیٹر میں بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی موجودہ کارکردگی کے بارے میں آپ کیساتھ معلومات شیئر کرونگا ، آپ سے گزارش ہے کہ اس کا نوٹس لیتے ہوئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی حالت زار کا نوٹس لیں.
شکریہ
سپورٹس رپورٹر
مسرت اللہ جان